چارسدّہ ایک بہت قدیم بستی ہے۔ جب بدھ مت رائج تھا تو اسے کنول کے پھولوں کا شہر کہتے تھے۔۔۔ عہد حاضر میں دنیا کی سب سے نرم، آرامدہ اور خوش شکل چپلیں یہاں کے کاریگروں کے ہاتھ تخلیق کرتے ہیں اور یہ کاریگر بہت نک چڑھے ہیں۔ جب میں نے فرمائش کی تو اس دکاندار نے کہا ’’تارڑ صاحب ۔۔۔ میرے والد خان عبدالغفار خان، باچا خان کے لیے چپلیں بناتے تھے اور میں نے خان عبدل ولی خان کے پاؤں کو سہولت فراہم کی ہے تو آپ کی فرائش سر آنکھوں پر۔۔۔ لیکن دو تین ماہ انتظار کرنا پڑے گا۔۔۔‘‘
چارسدّہ کے جتنے بھی کنول کے پھول تھے ان کی سفیدی پر معصوم بچوں کے خون کے چھینٹے سرخ ہو گئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر بچوں نے چاسدّہ کی چپلیں پہن رکھی ہوں گی، وہ خون آلود ہو گئی ہوں گی۔ اور چپلوں پر خون کے چھینٹے آج کی بات نہیں، میرے رسولؐ جب طائف گئے تو اُن پر پتھر برسائے گئے اور اُن کے پاؤں خون آلود ہو گئے، اُن کی وہ جوتیاں یا چپلیں جن کو وہ اپنے مبارک ہاتھوں سے گانٹھتے تھے اُن کی ہر گانٹھ اُن کے لہو سے بھرگئی۔۔۔ تو ہماری تاریخ کا یہ تسلسل چلا آتا ہے کہ وہ پتھر برساتے رہتے ہیں اور ہمارے کنول اور چپلیں خون میں نہائی جاتی ہیں۔
چارسدّہ کے بچوں کا خون نیا نہیں۔۔۔ تاریخ کا تسلسل ہے۔
صرف ایک فرق کے ساتھ کہ تب وہ جو منکر اور برگشتہ تھے، پتھر برساتے تھے اور آج وہ لوگ جن کے امیر کی پر اسرار موت پر اس کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی، اُس کے پیروکاروں نے پہلے آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں کے سروں میں گولیاں ماریں،اُنہیں چن چن کر ہلاک کیا، زندہ جلایا اور اب چارسدّہ کے بچوں کو مار ڈالا۔۔۔ کس سے فریاد کریں، کس سے منصفی چاہیں کہ ہم خود ہی انہیں قتل کرتے ہیں اور پھر خود ہی اُن کے نوحے لکھتے ہیں۔
مجھے نوحوں سے نفرت ہے کہ ہم قاتل کی نشاندہی نہیں کرتے، ماتم کرتے ہیں۔۔۔ تاریخ میں نہ چنگیز خان نے، نہ نادر شاہ اور نہ ہی تیمور نے یوں بچوں کا قتل عام کیا۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر کے نعرے لگانے والوں نے سر انجام دیا۔
پشاور آرمی سکول کے بچوں کے قتل عام کے بارے میں بہت دن چپ رہا۔۔۔ جیسے ایک باپ کے سب بیٹے مر جائیں تو وہ چپ رہتا ہے اور جب یہ غم برداشت سے باہر ہو گیا تو میں نے ’’اے مرے ترکھان‘‘ کہانی لکھی۔۔۔ ایک ترکھان کی منت سماجت کی کہ مجھے کچھ تابوت گھڑ دے۔۔۔ صرف ڈیڑھ سو کے لگ بھگ تابوت بنا دے تا کہ میں اپنے بچوں کو دفن کر سکوں۔۔۔ مجھے کیا پتا تھا کہ ابھی کچھ اور تابوت بھی گھڑنے ہیں۔
وہ جو ترکھان ہے جو میرے لیے تابوت گھڑتا ہے اس کا کہنا ہے کہ تابوتوں کے لیے لکڑی کے تختے کم پڑ گئے ہیں۔
پاکستان میں جتنے بھی جنگل ہیں ان کے شجر کم پڑ گئے ہیں۔۔۔ اور جتنے شجر باقی ہیں وہ فریاد کرتے ہیں کہ اے اپنے ہی بچوں کے قاتلوں کو دعائیں دینے والے بے حس لکڑ ہارو، تم جانتے ہو کہ ہم شجر بھی زندہ ہیں، جان رکھتے ہیں، رب کی ثنا کرتے ہیں تو ہمیں اللہ نے اس لیے تخلیق نہیں کیا کہ ہماری لکڑی سے صرف تابوت گھڑے جائیں اور وہ بھی بچوں کے۔ اور وہ بھی علم حاصل کرنے کی جستجو کرنے والے بچوں کے۔۔۔ تم بے شک ہماری لکڑی کے شہتیروں سے اپنے سر پر چھت قائم کرو۔۔۔ سکول کے لیے میزیں اور کرسیاں بناؤ، اپنے آرام کے لیے بستر بناؤ، کتابوں کے شیلف بناؤ، بے شک ہم سے آتش دان روشن کر کے اپنے ٹھٹھرتے بدنوں کو آسودہ کر لو۔۔۔ بے شک آسمان کے تارے توڑنے کے لیے سیڑھیاں بنا لو لیکن تابوت تو نہ بناؤ۔ ہم شجر تمہاری مجبوری سے آگاہ ہیں، تم اپنے بچوں کو کفن کی سفیدی میں لپیٹ کر دفنا نہیں سکتے کہ اُن کا خون بعد از موت بھی رِستا رہتا ہے، بہتا رہتا ہے اور کفن کی سفیدی کو بھگو دیتا ہے چنانچہ انہیں لکڑی کے تابوتوں میں دفنانا تمہاری مجبوری ہے۔ بلکہ ہمیں یاد ہے کہ آرمی پبلک سکول کے ڈیڑھ سو بچوں کے کومل بدنوں میں گولیوں کے چھیدوں سے خون فواروں کی مانند پھوٹتا تھا ایسے کہ ایک خونیں شالیمار باغ ہوا جاتا تھا۔ اور تم جانتے ہو کہ ہم زندہ ہیں اس کی ثنا کرتے ہیں تو ان بچوں کے لیے تم کیا جانو کہ ہم بھی روتے ہیں، جتنے آنسو ہم بہاتے ہیں تم نے کہاں بہائے ہوں گے کہ تم میں ہی اُن بچوں کے قاتلوں کے ثنا خواں موجود ہیں۔۔۔ کبھی ہمارے جنگلوں میں آؤ۔۔۔ ذرا دیکھو کہ ہماری شاخیں ہمہ وقت بھیگی رہتی ہیں، پتوں پر پانی کے قطرے لرزتے ہیں، لوگ انہیں شبنم کی بوندیں سمجھتے ہیں۔ لیکن وہ ہمارے آنسو ہوتے ہیں۔ کوئی اجنبی مسافر ہمارے جنگلوں میں سے گزرتا ہے تو بھیگ جاتا ہے۔ ہمارے آنسو دن رات بارش کی بوندوں کی مانند گرتے رہتے ہیں۔ مسافر یہی سمجھتا ہے کہ درختوں کی شاخوں پر گری اوس کے قطرے ہیں جو مجھے بھگوتے ہیں لیکن اگر وہ ذرا دھیان کرے تو اسے ہماری سسکیوں کی سرگوشیاں سنائی دے سکتی ہیں۔۔۔ اے لکڑ ہارو، اپنے بچوں کے قاتلوں کے لیے دعائیں کرنے والو کیا تمہیں شک ہے کہ شجر رو بھی سکتے ہیں۔ آنسو بہا سکتے ہیں۔ کیا تم اسے ا
Bookmarks