دنیا کے ہر شعبے میں کمپیوٹر کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے اور اب بہت سے دفتروں ، اداروں اور کارخانوں میں بہت سی ایسی جگہیں کمپیوٹروں نے سنبھال لیں ہیں جہاں پہلے انسان کام کرتے تھے۔ ماہرین کا کہناہے کمپیوٹر وں میں جس رفتار سے پیش رفت ہورہی ہے اس سے یہ خدشات بڑھ گئے ہیں کہ مستقبل میں وہ انسانوں پر حاوی ہوجائیں گے۔کیونکہ اب ایسے کمپیوٹروں پر سائنس دانوں کی تحقیق آگے بڑھ رہی ہے جو خود سوچ سکیں گے ، تجربات سے سیکھ سکیں گے اور ان کی بنیاد پر اپنے فیصلے خود کرسکیں گے۔
کمپیوٹروں کی موجودہ نسل صرف اس ڈیٹا پر کام کرتی ہے جو اس کی یاداشت میں محفوظ ہوتا ہے ۔ اگر انہوں نے کسی جاندار دماغ کی طرح کام کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی تو انسانوں کو ایک ایسی مشینی نسل کا سامنا کرنا پڑے گا جو کئی دماغی امور میں ان سے کہیں زیادہ تیزرفتاری سے کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوگی۔
وسکانسن میڈیسن یونیورسٹی کے سائنس دان گیولیو ٹونونی اس ٹیم میں شامل ہیں جو ایک ایسے کمپیوٹر پر کام کررہی ہے جو سوچ سکتا ہو اور اپنے تجربات کی بنیاد پر خود فیصلے کرسکتا ہو۔وہ کہتے ہیں کہ ان کی ٹیم ایک ایسا کمپیوٹر بنانا چاہتی ہے جو کسی چھوٹے جانور مثلاً چوہے یا بلی کے دماغ کی طرح کام کرسکتا ہو۔
ٹونونی وسکانسن میڈسن یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر ہیں اوروہ بین الاقومی سطح پر شعور کے ایک ماہر کے طورپر جانے جاتے ہیں۔ ان کی ٹیم کو اس پراجیکٹ پر کام کے لیے ابتدائی طورپر تقریباً 50 لاکھ ڈالر کی گرانٹ ملی ہے۔اس پراجیکٹ کا نام ایڈوانس پلاسٹک سکریبل الیکٹرانکس ہے۔
ٹونونی کولمبیا یونیوسٹی اور کمپیوٹر ساز ادارے آئی بی ایم کے سائنس دانوں کے ساتھ مل کر ایک ایسا سافٹ ویئر بنانے کی کوشش کررہے ہیں جو کمپیوٹر میں سوچ کی صلاحیت پیدا کرسکتا ہو۔جب کہ کارنل سٹین فورڈ اور کیلی فورنیا میرسید یونیورسٹی کے ماہرین کی ایک اور ٹیم اس سافٹ ویر کو استعمال کرنے والا خصوصی ہارڈ ویر یعنی کمپیوٹنگ مشین بنا رہی ہے۔
ٹونونی کہتے ہیں کہ ہر جاندار دماغ میں موجود نیوران کسی بھی تبدیلی کو فوراً محسوس کرتے ہیں اور وہ اسی لمحے اس کی اطلاع دماغ کے اس حصے کو پہنچاتے ہیں جس میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ مثلاً کوئی بلی اگر چھلانگ لگاتے ہوئے چولہے پر گرپڑتی ہے تو اس کے نیوران فوراً دماغ کو خبر کرتے ہیں اور دماغ کسی لمحے کی تاخیر کے بغیر اسے کودنے کا حکم دیتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ دماغ یہ بھی سیکھ لیتا ہے کہ آئندہ چولہے سے محتاط رہناہے۔یہ سب چیزیں دماغ میں مخصوص برقی لہروں کی شکل میں محفوظ ہوجاتی ہیں۔
سائنس دانوں کو اپنے تجربات میں جس مشکل کا سامنا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے انہیں ایک ایسے کمپیوٹر کی ضرورت ہے جو کم سے کم توانائی استعمال کرتا ہو۔ٹونونی کہتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے کیونکہ ہمارے سامنے اس کی مثال موجود ہے اور ہر جاندار کا دماغ بہت کم توانائی پر کام کرتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ابھی اس سلسلے میں بہت تحقیق کرنا باقی ہے کہ دماغ میں نیوران کس طرح پیچیدہ کام سرانجام دیتے ہیں۔ ان کے کام کے طریقہ کار کو سمجھ کر رہی اس سافٹ ویر کی تیاری میں مدد مل سکتی ہے جو کمپیوٹر کو کسی جاندار دماغ کی طرح کام کرنے پر تیار کرسکے۔
وہ کہتے ہیں کہ کمپیوٹر کے مصنوعی دماغ کو یہ سکھانا بھی ضروری ہوگا کہ وہ اپنے تجربات کو کس طرح اپنی یاداشت میں محفوظ رکھے گا اور کن حالات میں وہ انہیں دوبارہ استعمال میں لاکر اپنے فرائض از خود سرانجام دے گا۔یہ ایک مشکل اور انتہائی پیچیدہ عمل ہے۔
ٹونونی کہتے ہیں کہ ہم ایک ایسے ڈیزائن پر کام کررہے ہیں جس سے کمپیوٹر کا مصنوعی دماغ تمام معلومات کو برقی لہروں کی شکل میں اپنی یاداشت میں محفوظ کرسکے۔اور اس میں اتنے مصنوعی نیوران کی گنجائش موجود ہو گی جتنے کہ کسی چھوٹے جاندار کے دماغ میں ہوتے ہیں۔
ٹونونی کہتے ہیں کہ فی الحال ہم چوہے کے دماغ کا ماڈل سامنے رکھ کر کام کررہے ہیں۔ اس کے دماغ کے کام کا طریقہ کار ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ بہت کم توانائی کے ساتھ چوہے کے دماغ کے برابر صلاحیت کا حامل منصوعی دماغ اگرچہ مشکل کام ہے تاہم ہمیں اپنے پراجیکٹ کی کامیابی کی توقع ہے اور اس کامیابی کے بعد ہم کمپیوٹر کے لیے بلی یا بندر کا مصنوعی دماغ بنانے کی کوشش کریں گے۔
بحوالہ وائس آف امریکہ۔
http://www.voanews.com/urdu/2008-12-22-voa17.cfm
Bookmarks