اپنے سب یار کام کر رہے ہیں
اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں
تیغ بازی کا شوق اپنی جگہ
آپ تو قتل عام کر رہے ہیں
داد وتحسین کا یہ شور ہے کیوں
ہم تو خود سے کلام کر رہے ہیں
ہم ہیں مر وف انتظام مگر
جانے کیا انتظام کر رہے ہیں
ہے وہ بیچارگی کا حال کہ ہم
ہر کسی کو سلام کر رہے ہیں
ایک قتالہ چاہےہ ہم کو
ہم یہ اعلان عام کر رہے ہیں
کیا بھلا ساغر سفال که ہم
ناف پیالے کو جام کر رہے ہیں
ہم تو آئے تھے عرض مطلب کو
اور وہ احترام کر رہے ہیں
نہ اٹھے آہ کا دھواں بھی که وہ
کوئے دل میں خرام کر رہے ہیں
ہم عجب ہیں که اسکے کوچے میں
بے سبب دھوم دھام کر رہے ہیں
٭
Bookmarks