نقش فریادی ہے کس کی شوخیٴ تحریر کا؟
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
کاؤ کاوِ سخت جانیہائے تنہائی، نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئیشِیر کا
جذبہٴ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینہٴ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالَمِ تقریر کا
بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیرپا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
* * *
Bookmarks