حصہ اول
🕹منظر ۔ ۔ ۔ یرموک کی مشہور لڑائی جس میں چھتیس ہزار اسلام کے جانثار کافی دن رومیوں کے دس لاکھ لشکر کے سامنے پڑاؤ ڈالے رہے۔ ۔ ۔ ۔ رومیوں پر اسلامی لشکر کی ہیبت موتہ کی پہلی جنگ سے ہی بیٹھ چکی تھی, جب صرف تین ہزار جانبازوں نے حضرت زید, عبداللہ اور پھر جعفر طیار کی سرکردگی میں دولاکھ کا مقابلہ کیا تھا, لیکن وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دور تھا, بعد میں اسلامی لشکر کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اس دور میں شاہینوں کے سامنے نہ عرب کے مرتد ٹھہرے نہ فارس کے ہاتھی, یہ تمام خبریں رومی سپاہیوں کا حوصلہ توڑنے کیلئے کافی تھیں.
رومی سپہ سالار کے خیمے میں شام ڈھلے سے ہی کافی گہما گہمی تھی، تمام عقل مند اور تجربہ کار سردار موجود تھے ، ان میں وہ بھی شامل تھے جنہوں نے فارس کے ہاتھیوں والے لشکروں کو مات دی تھی، آج ان کا یہاں جمع ہونے کا مقصد ایسی حکمت عملی تیار کرنا تھا کہ جس کی مدد سے اسلامی لشکر کو شکست دی جاسکے۔
تمام سردار جنگ کی طوالت کی وجوہات پر اپنی اپنی رائے دیتے جارہے تھے، لیکن ہر رائے کو کوئی نہ کوئی اپنے اشکالات بتا کر مسترد کردیتا ، اسلامی لشکر ان کیلئے ایک ایسا چیلنج بن چکا تھا جس پر ان کی ہر جنگی چال ناکام ہوچکی تھی.
کافی دیر بعد جب سب لوگ اپنی اپنی رائے دے چکے تب رومی سپہ سالار نے اناطولیہ سے آنے والے طوما نامی مہمان کو متعارف کرایا جو کافی دیر سے بغیر کچھ کہے یہاں میں ہونے والی ہر بات توجہ سے سن رہا تھا، یہ شخص عقل و دانش میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا، جونہی رومی سپہ سالار نے اس کا نام لیا تو کئی لوگوں کے چہرے کھل اٹھے، کیونکہ وہ غائبانہ طور پر اس کی عقل مندی کے معترف تھے، روم کا سب سے ذہین دماغ آج ان کے درمیان موجود تھا۔
طوما نے عربوں کے متعلق کافی کچھ سن رکھا تھا، ویسے تو کبھی میدان جنگ میں اس نے عربوں کے جوہر نہیں دیکھے تھے لیکن آج کی یہ محفل عربوں کے متعلق کافی کچھ بتانے کیلئے کافی تھی۔
اب تمام سرداروں کی نظریں اب طوما پر لگی ہوئی تھیں، بالآخر اس کے لب ہلے "میں نے عربوں کے متعلق کافی کچھ سن رکھا ہے، ان کی عرب میں لڑی گئی جنگیں فارس کی فتوحات، اور اگر آج تک انہیں کسی نے پریشان کیا تو وہ مسیلمہ تھا جو بذات خود ایک عرب تھا، اگر اس کے پاس بڑی جمیعت اور وقت ہوتا تو ضرور انہیں روک پاتا لیکن اسے موقع نہ مل سکا، یہ سخت جان عرب نہ تو مرتے ہیں اور نہ ہی میدان سے ٹلتے ہیں، ان کی اصل طاقت کا راز ان کی کٹھن صحرائی زندگی ہے، اور دوسری طرف ہمارے جوان....... وہ شہروں کے تعیش میں پلے بڑھے ہیں ان میں عربوں جیسی سخت جانی نہیں ہے، اور ہماری عربوں سے پے درپے شکستوں کی یہی بنیادی وجہ ہے۔ "
"تو اس کا مطلب ہے کہ ہم میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں اور روم ایک تھال میں رکھ کرعربوں کو پیش کردیں؟" ایک ادھیڑ عمر افسر نے طنز کیا۔
"میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔" طوما نے اسی لہجے میں بات جاری رکھتے ہوئے کہا، "عربوں کے مقابلے میں عرب لاؤ کیونکہ لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے۔"
"مطلب غسانی عرب؟"
"بالکل, ایک وہی ہیں جو ان عربوں کو واپس عرب کی طرف دھکیل سکتے ہیں، ان عربوں نے کبھی شکست نہیں دیکھی، اسلئے اگر انہیں ایک مرتبہ مات دے دی گئی تویہ واپس وہیں جاکر دم لیں گے جہاں سے آئے تھے، اور جہاں تک غسانی عربوں کی بات ہے تو وہ میدان جنگ کے شاہسوار ہیں انہوں نے فارسیوں کے خلاف ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا ہے، ہمارا ہر جوان ان کی جرآت و بہادری کا معترف ہے، اس وقت بھی ان کی ساٹھ ہزار سپاہ ہمارے پڑاؤ میں موجود ہے اور میرا مشورہ ہے کہ کل میدان جنگ میں انہیں موقع دیا جائے۔" طوما یہاں تک کہہ کر خاموش ہوگیا، تمام لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں, لیکن کسی کو کھل کر طوما کی مخالفت کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ بالآخر طوما کا مشورہ حتمی فیصلہ بن گیا اور یہ محفل برخاست ہوگئی, اب خیمے میں صرف سپہ سالار اور طوما موجود تھے.
جب تمام لوگ سونے کی تیاری کر رہے تھے تب رومی لشکر سے ایک سایہ نکلا اور اسلامی لشکر کی پناہ گاہ کی طرف چل پڑا۔
🔄جاری ہے
Bookmarks