آٹھ آفات
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے
اللہ تعالیٰ ہمارے لئے ’’شعبان‘‘ میں برکت عطاء فرمائے… اور ہمیں ’’قبولیت‘‘ والا ’’رمضان ‘‘ عطاء فرمائے…
اللھم بارک لنا فی شعبان وبلغنا رمضان
آج کا موضوع
آج کا موضوع بہت اہم ہے… کوئی بندہ جب اللہ تعالیٰ سے غافل ہوتا ہے… یا کوئی گناہ کرتا ہے تو اس پر بہت سی مصیبتیں آتی ہیں…مگر ان مصیبتوں میں سے ’’آٹھ‘‘ بہت خطرناک ہیں …یہ آٹھ مصیبتیں انسان کی زندگی برباد کر دیتی ہیں …اور اس کی آخرت کو بھی خطرے میں ڈال دیتی ہیں…اس لئے ہمیں سکھایا گیا کہ ہر دن صبح اور شام ان آٹھ مصیبتوں سے بچنے کی دعاء مانگا کریں …عجیب بات یہ ہے کہ …شیطان ان آٹھ مصیبتوں کے تیر…ہر صبح اور ہر شام ہم پر چھوڑتا ہے…پس جو انسان صبح شام اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ جاتا ہے…وہ بچ جاتا ہے…اور جو یہ پناہ نہیں پکڑتا وہ ان تیروں میں سے کسی ایک یا زیادہ تیروں کا شکار ہو جاتا ہے…
وہ آٹھ مصیبتیں یہ ہیں:
(۱) ’’الھم ‘‘ یعنی فکر میں مبتلا ہونا
(۲) ’’الحزن‘‘ یعنی غم میں جکڑا جانا
(۳) ’’العجز‘‘ یعنی کم ہمتی ، بے کاری، محرومی
(۴) ’’الکسل‘‘ یعنی سستی ، غفلت
(۵) ’’الجبن‘‘ یعنی بزدلی، خوف، دل کا کمزور ہو کر پگھلنا
( ۶) ’’البخل‘‘ یعنی کنجوسی، حرص، لالچ اور مال کے بارے میں تنگ دلی
(۷) ’’غلبۃ الدین ‘‘ یعنی قرضے میں بری طرح پھنس جانا کہ نکلنے کی صورت ہی نظر نہ آئے
( ۸) ’’قھرالرجال ‘‘ یعنی لوگوں کے قہر، غضب ، غلبے اور ظلم کا شکار ہو جانا…
یہ آٹھ مصیبتیں ہمارے گناہوں کی وجہ سے … ہر روز کم از کم دو بار ہم پر حملہ آور ہوتی ہیں … صبح بھی اور شام بھی…
جی ہاں! ہر روز… آپ تجربہ کر لیں… آپ صبح اور شام ان آٹھ آفتوں سے حفاظت کی دعاء کا اہتمام کریں… مگر جس دن دعاء نہ پڑھی یا پڑھی مگر توجہ سے نہ مانگی… اس دن ان آٹھ میں سے کوئی مصیبت اچانک حملہ آور ہو گی…اور ہمارے دل کو پگھلانا شروع کر دے گی… بالکل فضول قسم کے تفکرات اور ہموم… ایک صاحب ایک بزرگ کے پاس گئے…پریشانی اور فکر کی وجہ سے چہرہ بدلا ہوا تھا… بار بار دل کو مسلتے اور سر کو پکڑتے … یوں لگتا تھا کہ ان کے اندر کوئی آگ جل رہی ہے … یا کوئی زہریلا جانور ان کو اندر ہی اندر سے ڈس رہا ہے… اسے ’’ھم ‘‘ اور فکر کہتے ہیں… بزرگ نے پوچھا کیا بات ہے؟… کہنے لگے… بھائی صاحب کا انتقال ہو گیا ہے… ان کے چھ بچے اب میرے ذمے ہیں…میں اس فکر میں ہوں کہ ان کو کہاں سے کھلاؤں گا؟… بزرگ نے پوچھا… بھائی نے وراثت میں کچھ نہیں چھوڑا؟…وہ صاحب کہنے لگے کہ یہی فکر تو آج لگی ہے کہ ہم نے بھائی کے چھوڑے ہوئے مال کا حساب کیا …وہ تو صرف ایک سال تک ان بچوں کی ضروریات پوری کر سکتا ہے… تو اس وقت سے میں جل رہا ہوں کہ…ایک سال کے بعد کیا ہو گا؟ … بزرگ نے فرمایا …ایک سال کا خرچہ موجود ہے… تم کو اگر رونا دھونا ہے تو ایک سال بعد رو لینا…ابھی سے کیوں جل رہے ہو؟… کیوں کڑھ رہے ہو؟… سبحان اللہ! ایک سال میں تین سو ساٹھ راتیں… تین سو ساٹھ دن… ایک سال میںچار موسم اور ہزاروں تبدیلیاں… ایک سال میں زندگی، موت اور رزق کے اترنے والے فیصلے… مگر شیطان جب ’’فکر‘‘ میں ڈالتا ہے تو اسی طرح تڑپاتا ہے… اپنی بیٹی پر نظر پڑی اور فکر شروع… شادی کہاں ہو گی؟ پھر کیا کرے گی؟ …معلوم نہیں اچھا رشتہ ہو گا یا نہیں؟…اسی طرح کبھی مکان کی فکر… کبھی گاڑی کی فکر… جو کچھ ہوا نہیں …اس کی فکر… پندرہ سال پہلے جب جماعت پر چھاپے پڑنا شروع ہوئے تو آگے کی فکر میں کئی افراد بھاگ گئے…مگر اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جماعت بھی چلتی رہی اور کام بھی بڑھتا گیا… لیکن وہ لوگ اپنے حصے سے محروم ہو گئے…کبھی بزدلی کا ایسا حملہ کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ!
تقریر جہاد پر کرنے جا رہے ہیں…اور دل خوف اور بزدلی سے اندر ہی اندر پگھل رہا ہے… ہر طرف موت ہی موت محسوس ہو رہی ہے… اور دل بیٹھا جا رہا ہے…یہ شیطانی حملہ نہیں تو اور کیا ہے؟…موت کا قرب تو خوشبودار اور روشنی بھرا ہوتا ہے… موت کے بعد ہی ملاقات ہے اور راحت … لیکن جب موت کالی کالی بلا نظر آئے تو سمجھ لیں کہ دل پر شیطانی حملہ ہو گیا… اسی طرح کم ہمتی کا حملہ کہ… بس چھوڑو سارے کام…بغیر جہاد کے بھی جنت مل جائے گی… اور کبھی سستی کا حملہ کہ بس بستر پر پڑے رہو…کوئی غم آئے یا خوشی مگر بستر نہ چھوٹے…تب بڑے بڑے عظیم کاموں سے محرومی ہو جائے گی… کبھی قرضے کا ایسا حملہ کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ …سمندر کی لہروں کی طرح ایک کے بعد دوسرا… اور دوسرے کے بعد تیسرا… اللہ تعالیٰ بچائے… ایسا منظر بن جاتا ہے کہ انسان کو زمین میں دھنس جانے کا جی چاہتا ہے…اور کبھی لوگوں کا قہر ، غضب اور غلبہ… کوئی مار رہا ہے… کوئی گھسیٹ رہا ہے…کوئی باندھ رہا ہے…کوئی مذاق اڑا رہا ہے… اور کوئی گالیاں بک رہا ہے …آٹھ مصیبتیں …ہر ایک مصیبت دوسری سے زیادہ خطرناک…
ضروری نہیں
پہلے عرض کیا ہے کہ…یہ آٹھ مصیبتیں ہم پر ہمارے گناہوں کی وجہ سے آتی ہیں…اور اس وقت آتی ہیں جب ہم اللہ تعالیٰ سے غافل ہوتے ہیں … لیکن یہ ضروری نہیں…ایسے نیک لوگ جو احکام الٰہی پورے کرتے ہیں…اور گناہوں سے حتی الوسع بچتے ہیں…ان پر بھی ان مصیبتوں کا حملہ ہوتا ہے…اور ہر دن ہوتا ہے… اور ہر دن دو بار یعنی صبح شام ہوتا ہے… یہ اس لئے تاکہ وہ مزید نکھر جائیں مزید پاک ہو جائیں… اور ان کے درجات مزید بلند ہو جائیں… اور اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ توجہ کرنے والے بن جائیں…
قیمتی دعاء
ان آٹھ مصیبتوں سے حفاظت کی دعائ… کئی احادیث مبارکہ میں آئی ہے… صحیح بخاری میں تو یہاں تک آیا ہے کہ…رسول اللہ ﷺ کثرت کے ساتھ یہ دعاء مانگتے تھے…بسی اسی سے اہمیت کا اندازہ لگا لیں…حضور اقدس ﷺ معصوم تھے، محفوظ تھے اور شیطان کے ہر شر سے پاک تھے… مگر پھر بھی اس دعاء کی کثرت فرماتے…ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ… حضور اقدس ﷺ دن کے وقت مسجد تشریف لے گئے تو وہاں اپنے صحابی حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کو بیٹھا پایا…پوچھا کہ نماز کا تو وقت نہیں پھر مسجد میں کیسے بیٹھے ہو … عرض کیا…تفکرات نے گھیر رکھا ہے…اور قرضے میں پھنس چکا ہوں… فرمایا یہ کلمات صبح شام پڑھا کرو… انہوں نے اہتمام فرمایا تو تفکرات بھی دور ہو گئے اور اللہ تعالیٰ نے سارا قرضہ بھی اُتار دیا … یہ دعاء الفاظ کی تقدیم تاخیر اور کچھ فرق کے ساتھ کئی احادیث میں آئی ہے… صحابہ کرام یہ دعاء ایک دوسرے کو قرآن مجید کی آیات کی طرح اہتمام سے سکھاتے تھے…
دعاء کے دو صیغے یہاں پیش کئے جا رہے ہیں …جو آسان لگے اُسے اپنا معمول بنا لیں…
(۱) اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ وَالْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَضَلَعِ الدَّیْنِ وَغَلَبَۃِ الرِّجَالِ…
(۲) اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّیْنِ وَقَھْرِ الرِّجَالِ…
الفاظ کا ترجمہ ایک بار پھر اختصار کے ساتھ سمجھ لیں…
’’الھم‘‘ تفکرات کو کہتے ہیں…آگے کی فکریں، پریشانیاں ، فضول پریشان کرنے والے منصوبے اور خیالات…
’’الحزن ‘‘غم کو کہتے ہیں …ماضی کے واقعات کا صدمہ اور غم ایک دم اُبھر کر دل پر چھا جائے… حالانکہ حدیث شریف میں آیا ہے … ’’کوئی بندہ ایمان کی حقیقت کو اس وقت تک نہیں پا سکتا جب تک اسے یہ یقین نہ ہو جائے کہ جو کچھ اسے پہنچا ہے وہ اس سے رہ نہیں سکتا تھا…اور جو کچھ اس سے رہ گیا وہ اسے پہنچ نہیں سکتا تھا۔‘‘(مسند احمد)
یعنی جو نعمت مل گئی وہ ملنا ہی تھی اس سے زیادہ نہیں مل سکتی تھی…جو تکلیف آئی وہ آنی ہی تھی اس سے بچا نہیںجا سکتا تھا…اور جو کچھ نہیں ملا وہ نہیں ملنا تھا خواہ میں کچھ بھی کر لیتا… مطلب یہ کہ اللہ کی تقدیر پر ایمان اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہونا…یہ غم کا علاج ہے…
’’العجز‘‘ کا مطلب اچھے کاموں اور اچھی نعمتوں کو پانے کی طاقت کھو دینا…اس میں کم ہمتی بھی آ جاتی ہے…
’’الکسل‘‘ کا مطلب سستی… یعنی انسان کے ارادے کا کمزور ہو جانا… میں نہیں کر سکتا … میں نہیں کرتا…
’’الجبن‘‘ بزدلی، موت کا ڈر، اپنی جان کو بچانے کی ہر وقت فکر …اللہ تعالیٰ نے جان دی کہ اس کو لگا کر جنت پاؤ مگر ہم ہر وقت جان لگانے کی بجائے جان بچانے کی سوچتے ہیں…اللہ تعالیٰ نے جان دی تاکہ ہم اسے لگا کر…دین کو غلبہ دلائیں، اسلامی حرمتوں کی حفاظت کریں…امت مسلمہ کو عزت دلائیں… مگر ہم جان بچانے کے لئے ہر ذلت برداشت کرنے پر تیار ہو جائیں … اسے ’’ جبن ‘‘ کہتے ہیں…
’’البخل‘‘ مال کے بارے میں کنجوسی کرنا …مال سے فائدہ نہ اٹھانا… مال جمع کرنے اور گننے کی حرص میں مبتلا ہو کر …مال کا نوکر اور ملازم بن جانا…اور مال کے شرعی اور اخلاقی حقوق ادا نہ کرنا…
’’ضلع الدین‘‘ قرضے کا بری طرح مسلط ہو جانا… فضول قرضے لینے کی عادت پڑ جانا … قرضوں کے بوجھ تلے دب جانا…
’’غلبۃ الرجال یا قہرالرجال ‘‘ … لوگوں کے ہاتھوں ذلیل ، رسوا ، مغلوب اور مقہور ہونا…
اللہ تعالیٰ میری اور آپ سب کی…ان آٹھ آفتوں اور تمام آفتوں سے حفاظت فرمائے…
آفتوں کے تعلقات
نیکیوں کے آپس میں تعلقات ہوتے ہیں … ایک نیکی انسان کو دوسری نیکی سے ملاتی ہے…اسی طرح گناہوں کے آپس میں تعلقات ہوتے ہیں ایک گناہ انسان کو دوسرے گناہ کی طرف کھینچ لے جاتا ہے… یہی حال ’’آفتوں‘‘ کا بھی ہے…ہر آفت انسان کو اگلی آفت کی طرف کھینچتی ہے…اہل علم نے ان آٹھ آفتوں کے باہمی تعلقات پر بہت عمدہ نکتے لکھے ہیں… مثلاً یہ کہ ’’ ھم ‘‘ اور ’’حزن‘‘ کا تعلق انسان کی روح کے ساتھ ہے…’’ھم ‘‘ روح کو آگے کی پریشانیوں میں ڈالتا ہے… اور ’’حزن‘‘ اسے ماضی کی پریشانیوں میں جلاتا ہے… عجز اور کسل کا تعلق عمل کی محرومی سے ہے… انسان کا ارادہ کمزور اور عمل کی طاقت سست پڑتی ہے تو وہ ترقی سے محروم ہو جاتا ہے… بخل اور جبن کا تعلق ذاتی نقصان سے ہے… انسان نے جان سے کچھ فائدہ نہ اٹھایا یہ جبن ہے… اور مال سے کوئی فائدہ نہ پکڑا یہ بخل ہے… اور قرضے اور مغلوبیت کا تعلق انسان کی آزادی سے ہے کہ …ان دونوں مصیبتوں کی وجہ سے انسان داخلی یا خارجی آزادی سے محروم ہو جاتا ہے… بندہ نے کافی غوروفکر کے بعد اس دعاء میں یہ دیکھا ہے کہ… ان آٹھ آفتوں کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے… ہر آفت کے بعد والی آفت اس کا سبب ہے… کالم کی جگہ ختم ہو رہی ہے اس لئے تفصیل سے نہیں لکھ سکتا اہل علم کے لئے اشارہ عرض کر دیا ہے…
موجودہ حالات
اس وقت پاکستان میں ’’ اہل دین‘‘ خصوصاً ’’اہل جہاد‘‘ پر جو حالات ہیں وہ …بظاہر مایوسی پھیلانے والے ہیں…تفکرات اور غموں میں ڈالنے والے ہیں… حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں… ایمان والے مجاہدین پر ہمیشہ ہی ایسے حالات رہتے ہیں… ’’جہاد فی سبیل اللہ ‘‘ عمل ہی ایسا ہے…مگر فرق یہ ہے کہ جب اپنے دل میں ہمت کی روشنی…یعنی ’’چارجنگ‘‘ موجود ہو تو… دل مطمئن رہتا ہے اور کام میں لگا رہتا ہے… لیکن اگر اپنے دل کی روشنی ہی کمزور پڑ جائے تو پھر جہاد میں اطمینان والے حالات کب نظر آ سکتے ہیں؟…
بدر کا الگ امتحان ہے…احد کا الگ امتحان ہے…احزاب کا الگ امتحان ہے… حتی کہ فتح مکہ کا بھی الگ امتحان ہے…
اس لئے ضرورت ہے کہ…اپنے دل کی روشنی پر نظر رکھی جائے کہ موجود ہے یا نہیں …کم ہے یا زیادہ… پھر اس روشنی کو قرآنی نسخوں اور مسنون دعاؤں اور اعمال کے ذریعے برقرار رکھا جائے …بڑھایا جائے…
رب اشرح لی صدری ویسرلی امری…
بس اسی سلسلے میں آج یہ قیمتی دعاء بھی عرض کر دی ہے… تاکہ اہل ایمان ان آٹھ خطرناک آفتوں سے بچنے کا سامان کریں… اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو اس مبارک دعاء کی برکات عطاء فرمائے…
آمین یا ارحم الراحمین
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
Bookmarks