حضرت محمدﷺ بحیثیت باپ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اولاد سے جنس کی تفریق کیے بغیر یکساں محبت کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولادِ نرینہ زیادہ دیر زندہ نہ رہ سکی مگر اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹیوں سے کوئی نفرت و عناد کا جذبہ نہ رکھا
جس طرح اس وقت عرب معاشرے میں رائج تھا، بلکہ آپ اپنی بیٹیوں سے بہت پیار کرتے اور ان کے ساتھ شفقت سے پیش آتے تھے۔
اکثر اپنی اولاد کو ملنے کی غرض سے تشریف لے جاتے اور ان سے بے پناہ محبت و شفقت کا اظہار فرماتے تھے۔
یہاں تک کہ خادمِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (حضرت انؓس)فرماتے ہیں کہ
“میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ ، بال بچوں پر شفقت کرنے والا نہیں دیکھا”۔
سیدنا انس ؓ سے ہی ایک اور واقعہ منقول ہے جس میں رسول ﷺ کی پدری شفقت و محبت کا بھرپور اظہار ہے۔
آپؓ بیان کرتے ہیں کہ
“(حضور ﷺ کے بیٹے)ابراہیمؓ مدینہ کے بالائی مضافات میں دودھ پیتے تھے۔
آپ ﷺ وہاں تشریف لے جاتے اور ہم حضور ﷺ کے ساتھ ہوتے۔
حضور ﷺگھر میں داخل ہوتے تو وہاں دھواں ہوتا تھا، کیونکہ ان (ابراہیمؓ) کا رضاعی باپ لوہار تھے۔
آپ ﷺ اس وقت ابراہیمؓ کو اٹھاتے، انھیں چومتے اورپھر واپس جاتے’’۔
حضور ﷺ کے یہ بیٹے حضرت ابراہیم ؓانتہائی کم عمری میں ہی انتقال کرگئے ۔ جب ابراہیم حالت نزاع میں تھے تو فرطِ محبت سے آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
عبدالرحمن بن عوف نے کہا: اے اللہ کے رسول ، آپ ﷺ بھی روتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابن عوف یہ رحمت ہے۔ پھراس کے بعد روئے اور فرمایا: آنکھ آنسو بہا تی ہے ، دل غمگین ہے مگراس کے باوجود ہم وہی بات کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی ہو۔
اور ہم اے ابراہیمؓ تیری جدائی کے سبب غمگین ہیں” ۔
آپﷺ انتہائی شفیق اور محبت کرنے والےباپ تھےہمیشہ سفر سے واپسی پر آپﷺ پہلے اپنی بیٹی فاطمہؓ کے گھر جاتے تھے۔
دنیاوی معاملات میں بھی غصہ نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی اونچی آواز میں بات کرتے ، بڑے پیار سے بات کرتے اور نصحیت فرماتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اولاد سے بے پناہ دلی قربت رکھتے وہیں تعلیم و تربیت کا بھی خاص دھیان رکھتے تا کہ اولاد بگڑنے نہ پائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کی بدولت آپ کی اولاد کے ذہن و قلب میں دین کی محبت پیوست تھی۔
اگر بچوں سے کبھی غیر ارادی طور پر کوئی ناپسندیدہ بات ہوجاتی تو آپ ﷺ فوراً ان کی اصلاح فرماتے ۔ نبوت کے ابتدائی دور میں ایک دفعہ یوں ہوا کہ حضور ﷺ لوگوں کو دین کی دعوت دے رہے تھے لیکن وہ ﷺ کی بات سمجھنے کی بجائے انہیں ایذاء دینے لگے ۔
لوگ حضور ﷺ کو تکالیف پہنچانے کے بعد تھک ہار کر واپس جانے لگےتو حضرت زینب ؓ آپ صلی اللہ علیہ وﷺسلم کے پاس آئیں ۔ اس وقت انھوں نے پریشانی کے عالَم میں دوپٹہ پیچھے ڈالاہو ا تھا اور ہاتھ میں پانی کا ایک بڑا پیالہ اور رومال اٹھایا ہوا تھا۔ یہ سب چیزیں حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیں تو آپ ﷺ نے پانی نوش فرمایا اور ہاتھ منہ صاف کیا۔پھر نظر اٹھا کر ارشاد فرمایا:
” بیٹی دوپٹہ کو سینے پر ڈال لو۔ اور ان حالات میں اپنے والد پر (ہلاکت کا) کوئی خوف نہ کرنا (اللہ تعالیٰ حافظ و ناصر ہیں)۔ اس سے ظاہر ہے کہ حضور ﷺ انتہائی مشکل حالات میں بھی تربیت سے نہ چوکتے بلکہ ہر لحاظ اس بات کا خیال رکھتے کہ بچے غلطی سے بھی خلافِ شرع یا خلاف اخلاقیات کوئی عمل نہ کریں۔"
بحیثیت باپ کے پیمانے پر دیکھا جائے تو بیٹی کیساتھ شفقت و محبت کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ جب بھی خاتونِ جنت سیدہ طیبہ طاہرہ حضرت فاطمۃ الزہرہؓ تشریف لاتیں تو آپ ﷺاُنکے استقبال کیلئے سروقد کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور عصمت و طہارت کی حامل پیشانی مبارک پر بوسہ دیکر خاتون ِ جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیٹھنے کیلئے وہ مبارک چادر ِ تطہیر بچھا دیتے تھے جس کو ربِ ذوالجلال نے ’’یَا اَیُھَا المُزمِل‘‘ کے آفاقی خطاب سے نوازا ہے۔
[1] صحیح مسلم، کتاب الفضائل 4/1808
متفق علیہ بحوالہ مشکوٰۃ: 1722
مجمع الزوئد للہثیمی، کتاب المغازی و السیر، باب : تبلیغ النبی صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم ما ارسل بہ وصبرہ علی ذالک، ص:31
فتاویٰ صراط مستقیم
ص108
Bookmarks