یہ عجب ساعتِ رخصت ہے کہ ڈر لگتا ہے

شہر کا شہر مجھے رختِ سفر لگتا ہے

ہم کو دل نے نہیں حالات نے نزدیک کیا

دھوپ میں دور سے ہر شخص شجر لگتا ہے

جس پہ چلتے ہوئے سوچا تھا کہ لوٹ آؤنگا

اب وہ رستہ بھی مجھے شہر بدر لگتا ہے


وقت لفظوں سے بنائی ہوئی چادر جیسا

اوڑھ لیتا ہوں تو سب خوابِ ہنر لگتا ہے


ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابش


میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے


(عباس تابش)

- - - Updated - - -

یہ چاہتیں یہ پذیرائیاں بھی جھوٹی ہیں
یہ عمر بھر کی شناسائیاں بھی جھوٹی ہیں
یہ لفظ لفظ محبت کی یورشیں بھی فریب،
یہ زخم زخم مسیحائیاں بھی جھوٹی ہیں
مرے جنوں کی حقیقت بھی سر بسر جھوٹی،
ترے جمال کی رعنائیاں بھی جھوٹی ہیں
کھلی جو آنکھ تو دیکھا کہ شہرِ فرقت میں،
تری مہک تری پرچھائیاں بھی جھوٹی ہیں۔۔
فریب کار ہیں اظہار کے سب وسیلے بھی
خیال و فکر کی گہرائیاں بھی جھوٹی ہیں
تمام لفظ و معنی بھی جھوٹ ہیں ساجد
ہمارے عہد کی سچائیاں بھی جھوٹی ہیں