ہوتے تھے تھوڈے مسئلے پہلے کی زندگی میں
اب تو مسائلوں میں تھوڈی سی زندگی ہے
کریم مایور
۔۔۔۔۔
میں اپنے ایک دوست سے ہمیشہ کہتا تھا کہ ہم لوگ قسمت والے ہیں کیونکہ قلیل سا سہی مگر ہم نے وہ وقت بھی دیکھا جب لوگ کچے گھروں میں رہتے تھے مگر ان کے دل پکے ہوتے تھے۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ گھر میں جو بھی کھانا بنتا تھا پہلے ہمسائے کے گھر دیتے تھے پھر خود کھاتے تھے لوگوں کے دل شیشے کی طرح صاف اور ایمان کے پختہ لوگ تھے ۔ گئے وقتوں میں لوگوں کی مصروفیات اور مسلے مسائل بھی کم ہوتے تھے دن کے وقت کام کرتے تھے اور رات کو ریڈیو سے خبریں اور گیت مالا سننا ان کے مشاغل۔۔ سادہ اور پرسکون زندگی ہوتی تھی۔ مگر اب غربت بھوک افلاس نے انسان کو کہیں کا نہ چھوڈا جو غریب ہے اسے دو وقت کی روٹی کی فکر اور جو صاحب حثیت ہے اسے اور کمانے کی حواس ۔۔ زندگی مختصر سی ہو کے رہ گئی کب صبح ہوتی ہے کب شام کچھ پتہ نہیں چلتا۔ ہر انسان کو صرف اپنی فکر لاحق ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے مسلے مسائلوں میں کہیں زندگی کھو گئی ہے
یہ ظلم۔تو نے کیوں کیا اے موسم نا مہربان
ہر ایک پتا جدا ہوا میری زندگی۔کی شاخ سے
کریم۔مایور
سجا رکھی ہے میں نے دل کے کونے میں تیری تصویر
وگرنہ ہم۔تو اپنے دل۔کی تنہائی سے مر جاتے
کریم۔مایور
بہت سے زخم لگے تھے چراغ چہرے پر
لگا کہ یوں کسی طوفان سے لڑ کے آئی ہے
کریم۔مایور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے کبھی سارا دن دھوپ میں جل جل کے مانگتی ہوئی کسی گدا گر بچی کو یا بچے کو دیکھا ہے؟ اس کے چہرے پہ موجود بے بسی اور لاچاری پہ۔کبھی غور کیا ہے ؟ آپ۔نے کبھی کسی ضیف شخص کو آرم۔کرنے کے دنوں میں مشقت کرتے دیکھا ہے؟ آپ۔نے کبھی کسی مجبور اور لاچار ماں کو اپنے بچوں کی خاطر در در کی۔ٹھوکریں کھاتے دیکھا ہے؟ کبھی دیکھ لینا دل کی آنکھوں سے۔۔۔۔ یہ شعر مکمل۔نہیں ہو رہا تھا کافی دنوں سے کیونکہ کچھ الفاظ لکھتے وقت ہاتھ کانپتے ہیں ۔۔۔ دل دھڑکنا چھوڈ دیتا ہے گلہ رند سی جاتی ہے ۔۔۔۔ کہانی زہین میں گردش کرتی ہے مگر قلم سے اسکو کاغذ پہ۔اتارنا مشکل۔ہو جاتا ہے ۔۔۔۔ خیر میری بات آپ۔کو سمجھ آگئی۔ہوگی نہیں تو
اوروں کی طرح نظر انداز کر کے آگے بڑ جانا
تیز طوفان کو یہ کہاں معلوم
کتنے پتےجدا شجر سے ہوۓ
کریم مایور
....
آپ نے کبھی کسی تیز آندھی کو کسی حقیر سی تنکے کی پرواہ کرتے دیکھا ہے ؟ آپ نے کبھی کسی مہجبیں شعلہ نشین کو کسی غریب کی طرف نگاہ کرم ڈالتے ہوۓ دیکھا ہے کہ اس کی وار سے غریب کے دل پہ کیا گزر رہی ہے یہی دنیا کا قانون ہے کہ ھر طاقت ور شے کمزور اور نا توان چیز کو بہا لے جاتی ہے
Bookmarks