Aaheer said:
مجھے
یعنی محبت کو بھلا اس بات سے کیا ھے
کہ تم کیا تھیں nice
کہاں کس سے ملی تھیں
اور کہاں شامیں گزاری تھیں
تمھاری سرمگیں آنکھوں نے کس کے خواب دیکھے تھے
نہیں !
مجھ کو
محبت کو کسی ماضی کے لمحے سے کوئی مطلب نہیں رکھنا
محبّت " ہے" کا صیغہ ہے !
یہ تھا اور تھی نہیں ہوتی
یہ ہوتی ہے
سدا ہونے کو ہوتی ہے
یہ وہ مٹؔی ہے جو پانی بگھوتی ہے
سو میں
یعنی محبّت، تم سے کیوں پوچھے
کہ تم کس غم سے گھائل تھیں
محبّت پوچھتی کب ہے !!
کہاں سے آ رہے ہو ؟ کون ہو ؟ اور کس سے ملنا ہے ؟؟
سوالوں میں نہیں پڑتی
یہ استقبال کرتی ہے
تھکے ہارے ہووں کو اپنا جیون دان کرتی ہے
گلے ملتی ہے اور آنکھوں پہ اپنا اسم پڑھتی ہے
تو پھر جیسا بھی ماضی ہو
کوئی ماضی نہیں رہتا
سو میں بھی لمحہ ء موجود میں تم کو سنبھالوں گا
تمھاری مسکراہٹ سے ذرا پیچھے
جو اندیکھی خراشیں ہیں
اگر میں بھر سکوں ان کو
تمھاری گفتگو میں سسکیوں کے ان کہے وقفے
ہنسی میں گر بدل پاوں
تو پھر مانوں
کہ ہاں مجھ کو محبّت ہے
مجھے
یعنی محبّت کو کسی ماضی سے کیا لینا
مجھے یہ " حال" کافی ہے ۔۔۔ !!
علی زریون
Bookmarks