السلام علیکم

ماهتاب اپنا سالانه دور ایک اور ختم کرچکا- زمین اپنی سالانه گردش کی ایک منزل اور تمام کرچکی-
ماهتاب و زمین کی حرکتوں کے نظریے صحیح ہوں نہ ہوں اتنا تو
بہر حال یقينی ہے کہ ہر ذی روح کی عمر میں ایک سال کی اورکمی ہوگئ-
کتنی جگہ سالِ نو کا جشن منایا جارہا ہوگا- کتنی جگہ خوشی اور شادمانی کے شادیانے بج رہے ہونگے-لیکن دوستو! اور عزیزو!
سوچو اور سمجھو کہ یہ موقع جشن و مسرت کا ہے یا حسرت و ماتم کا-
اس ایک سال کی مدت میں
🔹کتنی نمازیں ضائع ہوئیں' کتنی نمازیں اس طرح پڑھیں کہ اُن کا پڑھنابمنزلہ نہ پڑھنے کے تھا-
🔹عبادتوں کے کتنے بھتر سے بھتر مواقع ہاتھ سے جانے دے، کتنے فرائض ترک کئے، کتنی سنن اور مستحبات کو بے توجہی کی نذر کردیا-
🔹کان اور آنکھ' ہاتھ اور پاؤں اور زبان کے کتنے حد شمار سے خارج گناہ سرزد ہوئے-
🔹اپنے دوستوں عزیزوں اورجاننے والوں کے کتنے حقوق تلف کیے-
🔹آنکهوں سے کتنی وہ چیزیں دیکھ ڈالیں جو دیکھنے کی نہ تھیں-🔹کانوں سےوہ کیا کچھ سن ڈالا جو کسی طرح سننے کے قابل نہ تھا
🔹زبان کتنی ایسی باتوں پر کھلتی رہی جن پر اسے بند ہی رہناچاہئے تھا
🔹غیبت، بدگوئ، حسد، جھوٹ، دلازاری، بدگمانی، حرص، سخت کلامی، تعلّی، خودنمائی، بخل، اسراف، نمائش و غرور، ریاکاری، گناہوں کی فہرست میں کون سا ایسا گناہ باقی رہا جس کا ارتکاب بار بار اور کثرت کے ساتھ نہ ہوا ہو- 🔹جس انسان کا سال بھر کا یہ ریکارڈ ہو، جس کے سالانہ نامۂ اعمال کے اوراق یوں سیاہ ہوں اور سال بھرکی فہرست ختم ہو جانے پر اگر اپنے نصیبوں کو نہ روئےتو آخر کیا کرے-
🔹گھڑی دو گھڑی نہیں، دن دو دن نہیں پورے ۳۶۰ دن کی مدت کوئی تھوڑی مدّت ہے- اتنی طویل مدّت جو شخص محض نذر غفلت کردے اْس کی محرومیوں کا کیا ٹھکانہ ہے- اس کی بدنصیبیوں کی کوئی انتہا ہے اس کی شور بختیوں کا کھیں علاج ہے-

*اگر شانِ عدل کا ظھور ہونے لگے تو ایسے مجرم کو کہیں پناہ مل سکتی ہے- اگر انصاف کی داروگیر شروع ہوجائے ایسے خطا کار کو کوئی اپنے دامن میں لے سکتا ہے-*

لیکن اے کریمِ کار ساز!
ہر دل شکستہ کا آسرا،
تو ہی ہر مایوسی کی آخری اْمید، تیرا عفووکرم بے پایاں ہے، تیرا لطف و نوازش بے حساب، تو اس پر قادر ہے کہ ایک سال کی نہیں سالہا سال کی غفلتوں اور تباہ کاریوں اور کوتاہیوں کی سیاہی کو مٹا سکتا ہے- اے مولا!
ہماری اِن کمزوریوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرما! آمین!!