السلام علیکم
کیسے ہیں دوستو!امیدہے بخیروعافیت سے ہوں گے۔
آج میں آپ کوبتاؤں گاکہ ان شاء اللہ کو انشاء اللہ کے طرز میں لکھنا کیسا ہے؟اور ان دو طرز کتابت سے معنی میں کوئی فرق آتا ہے؟
میں آپ کوسادہ انداز میں سمجھانے کی کوشش کروں گا۔
ان شاء اللہ یہ جملہ تین کلمات پر مشتمل ہے او ر تینوں کلمے الگ الگ علم نحو میں اپنی ایک حیثیت رکھتے ہیں(1) ان شرطیہ ہے (2)شاء فعل ماضی معروف کا صیغہ ہے(3) اللہ اسم جلالت شاء فعل کا ترکیب نحوی کے لحاظ سے فاعل ہے۔اور ان تین کلمات کو الگ الگ ہی لکھا جاتا ہے۔
قرآن و احادیث اور عربی زبان میں تحریر (14)سو سالہ کتابوں میں الگ الگ ہی لکھا گیا ہے۔لیکن اب عرب و عجم میں یہ ان شرطیہ کو شاء فعل کے ساتھ ملا کر لکھنے کی خطا بہت عام ہو گئی ہے۔
درست رسم الخط ان شاء اللہ ہی ہے۔انشاء اللہ لکھنا ہرگز ہرگز درست نہیں ہے۔ایسا لکھنے سے اجتناب کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے کیونکہ اس طرز کتابت سے جو معنی بنتے ہیں وہ کفر ہیں۔
قرآن کریم کی آیات
1. وَإِنَّا إِنْ شَاء َ اللَّہُ لَمُہْتَدُونَ (البقرۃ 2/70)
2. وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شَاء َ اللَّہُ آَمِنِینَ (یوسف 12/99)
3. قَالَ سَتَجِدُنِی إِنْ شَاء َ اللَّہُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِی لَکَ أَمْرًا (الکہف 18/69)
4. سَتَجِدُنِی إِنْ شَاء َ اللَّہُ مِنَ الصَّالِحِینَ (القصص 28/27)
5. سَتَجِدُنِی إِنْ شَاء َ اللَّہُ مِنَ الصَّابِرِینَ (الصافات 37/102)
6. لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاء َ اللَّہُ آَمِنِینَ(الفتح 48/27)
ان مندرجہ بالا آیات سے واضح ہوا کہ قرآن کریم میں ان شرطیہ کو شاء ماضی کے صیغہ سے الگ کر کے لکھا گیا ہے۔
احادیث شریف میں ان شاء اللہ کا رسم الخط
1. فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَأَفْعَلُ إِنْ شَاء َ اللَّہُ(صحیح البخاری 407)
2. لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَۃٌ یَدْعُوہَا فَأَنَا أُرِیدُ إِنْ شَاء َ اللَّہُ أَنْ أَخْتَبِئَ دَعْوَتِی شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ (صحیح مسلم 295)
3. إِنَّہَا لَرُؤْیَا حَقٌّ إِنْ شَاء َ اللَّہُ (سنن ابی داؤد 421)
4. أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ حَلَفَ عَلَی یَمِینٍ فَقَالَ إِنْ شَاء َ اللَّہُ فَلَا حِنْثَ عَلَیْہِ (الجامع للترمذی 1451)
5. أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَی الْمَقْبُرَۃِ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِینَ وَإِنَّا إِنْ شَاء َ اللَّہُ بِکُمْ لَاحِقُونَ (سنن النسائی 150)
6. اجْتَمَعَ عِیدَانِ فِی یَوْمِکُمْ ہَذَا فَمَنْ شَاء َ أَجْزَأَہُ مِنْ الْجُمُعَۃِ وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ إِنْ شَاء َ اللَّہُ (سنن ابن ماجۃ 1301)
وضاحت معنی (انشاء اللہ)
ان کو جب شاء سے ملا کر لکھیں تو اس کی شکل (انشاء ) ہو جاتی ہے جو کہ باب افعال کا مصدر ہے جس کا معنی ہے پیدا کرنا ، ایجاد کرنا۔اس کا ماضی اور مضارع (انشأ ینشیٔ)ہے ۔جس کا معنی ہے پیدا کرنا ایجاد کرنا ،ایسی اختراع جس کی سابق میں کوئی مثال نہ ہو۔
اللہ کریم فرماتا ہے۔
1. وَہُوَ الَّذِی أَنْشَأَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَۃَ قَلِیلًا مَا تَشْکُرُونَ (المؤمنون78)
2. قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللَّہُ یُنْشِئُ النَّشْأَۃَ الْآَخِرَۃَ إِنَّ اللَّہَ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیرٌ (العنکبوت20)
3. إِنَّا أَنْشَأْنَاہُنَّ إِنْشَاء ً (الواقعۃ35)
ان تین آیات میں انشاء مصدر باب افعال اور انشأ ماضی معروف ینشء فعل مضارع آیا ہے جس کے معنی ہیں پیدا کرنا۔اب تیسری آیت کو پیش نظر رکہیں جس میں کہ انشاء مصدر موجود ہے اس مصدر کی ہیئت اور انشاء اللہ لکھنے میں انشاء کی ہیئت ایک ہے۔
اس کا معنی کچھ اس طرح ہوجائے گا۔اللہ تخلیق کیاگیا،ایجادکیاگیا(نعوذباللہ)۔
ان کو شاء کہ ساتھ ملا کر لکھنے میں اتنے سخت قبیح معنی بنتے ہیں لہذا اس طرز کتابت سے اجتناب تمام مسلمانوں پر لازم ہے۔اور جہان کہیں ایسا لکھا دیکھیں فوری درست کریں۔کسی مسلمان کہ دل میں اس معنی کا خیال تک نہیں گزرتا ہوگا۔
اب آپ سب اپنی رائے دینے کاحق رکھتے ہیں۔
والسلام
Bookmarks