Results 1 to 12 of 41

Thread: کریڈٹ کارڈ

Threaded View

Previous Post Previous Post   Next Post Next Post
  1. #1
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default کریڈٹ کارڈ

    کریڈٹ کارڈ....صارفین کو کنگال کرنے کا سودی ویہود ی پھندا





    آپ میں سے اکثر بھائی اور بہنیں کریڈٹ کارڈکے نام سے واقف ہوں گے خاص طور پر ہمارا ملازمت پیشہ طبقہ تو لازماً جانتا ہوگاکہ یہ کیا بلا ہے اور کیسے لوگوں کو اپنے جال میں پھانستا ہے لیکن پھربھی بہت سے لوگ اس سے مکمل طور پر واقف نہیں ہیں‘ اس لئے وہ بے دھیانی میںہی اس یہودی طلسمی جال میں پھنس جاتے ہیں۔ آج میں آپ کا تعارف یہودیوں کے پھیلائے ہوئے اس طلسمی سودی پھندے سے کرواتا ہوں۔ کریڈٹ کارڈ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ‘ قرضے کی ایک قسم ہے۔ اکاﺅنٹنگ کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ کاروبار میں کریڈٹ کا لفظ ادھار یا قرضے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ اردو میں اپنا حساب رکھنے والے لوگ دو اصطلاحات استعمال کرتے ہیں یعنی نام اور جمع ۔ نام وہ رقم ہوتی ہے جو انہوں نے کسی سے بھی وصول کرنا ہوتی ہے اور جمع وہ رقم ہوتی ہے جو انہوں نے کسی کو ادا کرنا ہوتی ہے۔ انگریزی میں اگر ان اصطلاحات کا ترجمہ کیا جائے تو یہ ڈیبٹ اور کریڈٹ بنتا ہے یعنی کریڈٹ وہ رقم ہوتی ہے جو واجب الادا ہوتی ہے۔ اب ذرا کریڈٹ کارڈ پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر قرضے کی ایک شکل ہوتی ہے جو بینک بغیر کسی شخصی ضمانت کے آپ کو دے دیتا ہے خاص طور پر اگر آپ ملازمت پیشہ ہیں تو پھر صرف آپ کی ملازمت اور آمدنی کاثبوت آپ سے مانگتا ہے اور آپ کو ایک خاص حد تک قرضہ جاری کردیتا ہے۔ یہ خاص حد عام طور پر آپ کی تنخواہ کا تین سے چار گنا تک ہوتی ہے۔ اس کے لئے وہ آپ کو ایک کارڈ جاری کردیتاہے جسے کریڈٹ کارڈ کہتے ہیں اور اب اس کارڈ کے ذریعے آپ اس خاص حد تک جو آپ کو جاری کی گئی ہے ‘ اس رقم کا مالک بن گئے ہیں اب آپ اس کارڈ کے ذریعے مختلف جگہوں پر خریداری بھی کر سکتے ہیں۔ مثلاً ہوٹل‘ میڈیکل سٹور‘ پٹرول پمپ الغرض تقریباً ہر قسم کی خریداری آپ کر سکتے ہیں لیکن صرف ان مخصوص بڑی دکانوں سے جہاں پر یہ سہولت موجود ہوتی ہے۔ اس سہولت کے بارے میں ان دکانوں نے سٹیکر لگائے ہوئے ہوتے ہیں کہ یہاں پر کریڈٹ کارڈکی سہولت موجودہے لہٰذا آپ وہاں جاتے ہیں اور جاکر مزے سے خریداری کرتے ہیں اور اپنا کارڈ چارج کروا دیتے ہیں۔ رقم آپ کو ادا نہیں کرنا پڑتی بلکہ آپ کی جگہ بینک یہ رقم اس دکاندار کو ادا کردیتاہے اور آپ بینک کی اس خرچ کی گئی رقم کی حد تک مقروض ہوجاتے ہیں جس کے لئے بعد میں آپ کو بینک کی طرف سے اسی رقم کا بل موصول ہوتا ہے اور آپ اس کی ادائیگی مقررہ وقت میں کرکے یہ قرض ادا کر سکتے ہیں۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اب اس میں کیا قباحت ہے یہ تو ایک اچھی سہولت ہے جو بینک نے بالکل مفت فراہم کرنا شروع کردی ہے جبکہ پہلے اس کی سالانہ دو ہزار تک فیس ہوتی تھی۔ محترم یہی تو وہ پھندا اور دھوکہ ہے جس میں یہ یہودی ایجنٹ ہم سب مسلمانوں کو پھنسا رہے ہیں۔ پہلے پہل اس کی فیس ہوتی تھی اور شرائط بھی کافی سخت ہوتی تھیں جس کی وجہ سے کافی امیرلوگ یہ کارڈ بنواتے تھے لیکن جب سے یہ بالکل فری ہوا ہے‘ اب ہر شخص یہ سوچتا ہے کہ یار چلو بنوا لیتے ہیں۔ کونساپیسے دینے ہیں او رپیسے تو تب دینے پڑیں گے نا جب استعمال کریں گے اور وہ بھی اگر مقررہ مدت میں ادا کردیں گے تو صرف اتنی ہی رقم ادا کرنا پڑے گی جتنی استعمال کی ہوگی‘ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ صرف چندایک مستثنیات کے علاوہ ہر جگہ پہ جب آپ ادائیگی اس کارڈکے ذریعے کرتے ہیں تو آپ کو اڑھائی فیصدادائیگی زیادہ کرنا پڑتی ہے جو کہ آپ کے اس کارڈ پر چارج ہوتی ہے۔ فرض کریں آپ نے میڈیکل سٹور سے ایک ہزار کی ادویہ خریدیں تو آپ کو بینک سے جو بل آئے گا وہ ایک ہزار پچیس روپے کا ہوگا جو آپ کو مقررہ مدت کے اندر ادا کرنا ہوگا اور اس مدت میں ادا نہ کرنے کی صورت میںبینک کا میٹر چالو ہوجائے گا۔ اب غیر ادا شدہ رقم پر سود لگنا شروع ہوجائے گا جس کی شرح 36% سالانہ بنتی ہے یعنی 3% ماہانہ اور اس سود کو سود کہنے کی بجائے بینک سروس چارجز کے نام سے متعارف کرواتاہے تاکہ لوگ دھوکے میں رہیں۔ جن چند مستثنیات کا میں نے اوپرذکر کیا ہے وہ یہ ہیں‘ پیٹرول اور ہوٹل پر کھانا۔ باقی تمام اشیاءکی خریداری پر یہ اڑھائی فیصد بلکہ کچھ بینک تو تین فیصد بھی چارج کرتے ہیں۔ محترم قارئین اب آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے تو پھر کیا ہوا‘ یہ تو بینک کا حق ہے کہ اگر وہ اتنی سہولت دے رہا ہے تو وہ فیس بھی چارج کر سکتا ہے کیونکہ ہمیںبھی تو رقم ادا کرنے میں کچھ مہلت مل رہی ہے اور اس مہلت میں ادا کرنے پر ہمیں کچھ سود نہیں ادا کرنا پڑتا‘ صرف سروس چارجز دینے پڑتے ہیں ‘اب میں اس مہلت پر ذرا روشنی ڈالتا ہوں۔ یہ مہلت آپ کو بل وصول ہونے کے بعد تقریباً 12 سے 14 دن تک ہوتی ہے لیکن آخری تاریخ سے کم از کم تین ورکنگ دن پہلے آپ کو لازماً ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ اس طرح یہ مہلت تقریباً 12 دن بنتی ہے اور بعض دفعہ بلکہ اکثر اوقات آپ کو بل ملنے میں چار سے پانچ دن کی تاخیر ہوجاتی ہے لہٰذ ایہ مہلت کم ہوکر صرف آٹھ دن رہ جاتی ہے اور اس میں سے بھی چھٹیاں کم کرلیں تو آپ خود اس مہلت کی سہولت کا اندازہ لگا سکتے ہیں جس کے لئے آپ اڑھائی سے تین فیصد زیادہ ادائیگی کرتے ہیں۔ اب آتے ہیں تصویر کے دوسرے رخ کی طرف یعنی فرض کرلیا کہ یہ بینک کا حق ہے۔ آپ کو سہولت ملی ا س لئے تھوڑے پیسے زیادہ بھی دینے پڑے تو کوئی بات نہیں اس کے علاوہ وقت پر ادائیگی کرنے سے مزید کچھ اضافی پیسہ نہیں دینا پڑتا۔ تو محترم قارئین‘ آپ خود سوچیں کہ ایک نوکری
    Last edited by imran sdk; 16th February 2009 at 01:50 PM. Reason: UNCOPMLET

Similar Threads

  1. Replies: 12
    Last Post: 10th May 2021, 07:37 PM
  2. Replies: 20
    Last Post: 19th October 2016, 11:05 AM
  3. Replies: 0
    Last Post: 31st October 2013, 10:55 AM
  4. ہارڈڈسک نو ڈیٹکٹ
    By jijaved in forum Ask an Expert
    Replies: 2
    Last Post: 19th November 2011, 08:03 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •