Results 1 to 3 of 3

Thread: قرض حسنہ

  1. #1
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default قرض حسنہ

    قرض حسنہ نائلہ صادق قرض حسنہ یا انفاق فی سبیل اللہ کا معنی ہے۔ ”اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔“ اس سے مراد یہ کہ خلوصِ نیت سے اپنی حلال کمائی میں بغیر کسی ذاتی و دنیوی غرض کے ان مصارف پر خرچ کرنا جن پر اللہ نے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے یا جن پر خرچ کرنا مالک کو پسند ہے۔“ اور کسی بھی نیک کام میں خرچ کرنا اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہی ہے اورنیکی کی راہ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ کے کاموں میں خرچ کرنا بھی ہو سکتا ہے اور اس کے علاوہ بھی۔ ہر مسلمان کو صدقہ دینا ضروری ہے صحابہ y نے عرض کیا: ”یا رسول اللہ جس کے پاس مال نہ ہو“ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا: ”وہ ہاتھ سے محنت کر کے خود بھی فائدہ اٹھائے اور خیرات بھی کرے۔“ صحابہ کرامy نے عرض کیا: ” اگر یہ بھی نہ ہو سکے؟“ فرمایا: ”اچھی بات پر عمل کر ے اور بری بات سے پرہیز کرے اس کے لیے یہ بھی صدقہ ہے۔“ (بخاری) انفاق فی سبیل اللہ (صدقات نافلہ) کی اہمیت و ترغیب انفاق فی سبیل اللہ اسلام کے معاشی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی اسلام میں بہت اہمیت ہے۔ ربّ ذوالجلال نے فرمایا: ”اے ایمان والو! جو رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں وہ دن آنے سے پہلے اللہ کی راہ میں خرچ کر لو جس دن نہ خرید و فروخت ہو گی نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش۔“ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )عورتوں کو صدقہ خیرات کی بہت تلقین کیا کرتے تھے کہ یہی نیکی ہے جس کو بڑھانے کے وعدے اللہ نے قرآن میں کئے بہت پیارے انداز میں صدقات کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرمایا: ”ایسا کون شخص ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے، پھر اللہ اس کو کئی گنا بڑھا کر دیتا ہے۔“ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )سے سوال ہوا۔” کون سا صدقہ اجر و ثواب کے لحاظ سے بڑا ہے؟ “فرمایا:” جو رمضان المبارک میں دیا جائے۔“(ترمذی) اور خود رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )رمضان المبارک میں اس کثرت سے صدقہ و خیرات کرتے گویا تیز آندھی ہو۔ جب کہ ہمارا حال یہ ہوتا ہے کہ پہلے اپنے پیٹ اور گھر بھر لیں ہمسایہ چاہے بھوکا ہی کیوں نہ ہو.... جب کہ اللہ نے اپنے متقین کی صفت یوں بیان کی ہے۔ ”َ یُ¶±ثِرُو±نَ عَلٰٓی اَن±فُسِہِم± وَ لَو± کَانَ بِہِم± خَصَاصَةµ“(الحشر:۹) ”وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ خود فاقے سے ہوں۔“ اور ہم نے کبھی ایسے کیا کہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دی ہو....؟ اگر کبھی نہیں کیا تو چلیں اس رمضان میں کر کے دیکھتے ہیں اور اس کے لیے بہت سے طریقے اپنائے جا سکتے ہیں۔ ایک دو میں آپ کو بتاتی ہوں پہلے تو یہ کہ افطاری کے وقت کھانا بناتے ہوئے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے سالن میں تھوڑا پانی زیادہ ہمسایوں کے لیے، ڈالنے والی حدیث کو ذہن میں رکھیں.... اور دوسرا یہ کہ اگر اللہ نے آپ کو اتنی حیثیت دے رکھی ہے کہ آپ ایک غریب گھر میں راشن یعنی آٹا ، چینی، گھی وغیرہ دے سکتے ہیں۔ تو ایسا ضرور رکریں اگر آپ اکیلے ایسا نہیں کر سکتے تو زیادہ سے زیادہ پانچ صاحبِ حیثیت گھرانے مل کر اپنے محلے کے ایک غریب گھر کے فاقے زدہ بچوں کو تو روٹی دے سکتے ہیں.... آپ خود کو اس گھرانے کے لوگوں کی جگہ پر رکھ کر دیکھیں ان شاءاللہ فیصلہ آسان ہو جائے گاورنہ اس آیت کو ذہن میں رکھ لیں۔ ”لَن± تَنَالُوا ال±بِرَّ حَتّٰی تُن±فِقُو±ا مِمَّا تُحِبُّو±نَ“۔(آل عمران:۲۹) ہم بھی آج وہ حالات پیدا کر سکتے ہیں کہ کوئی امیر ہاتھ پر صدقہ و خیرات لے کر نکلے لیکن اسے لینے والا نہ ملے۔ لیکن اس کے لیے کرنا یہ ہو گا کہ دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دینے والی خصوصیت پیدا کرنی ہوں گی۔ یہ دنیا بھی جنتِ نظیر بن سکتی ہے۔ بس تھوڑا سا اپنی سوچوںکو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ 1 پاک مال خرچ کیا جائے اس بات کا خاص خیال رہے کہ جو مال ہم اللہ کی راہ میں خرچ کر رہے ہیں۔ 1وہ حلال طریقے سے کمایا گیا ہو۔ 2ظلم و زیادتی سے حاصل نہ کیا گیا ہو۔ 3دھوکے کا مال نہ ہو۔ 4اس میں حرام کی آمیزش نہ ہو۔ بلکہ پاک مال خرچ کیا جائے کیونکہ مالک کو حرام مال پسند نہیں۔ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ صرف پاک مال قبول کرتا ہے“۔(بخاری ومسلم) 2عمدہ مال خرچ کیا جائے اللہ کی راہ میں اپنے مال کا سب سے عمدہ حصہ خرچ کرنا چاہیے۔ جب کہ اس معاملے میں ہمارا حال یہ ہوتا ہے کہ جو چیز ردی ہو گئی، ناکارہ ہو گئی اور جسے ہم نے اپنے استعمال کے قابل نہ سمجھا وہ اٹھا کر اللہ کی راہ میںدے دیتے ہیں تو کیا ہم اپنے دل سے اتری ہوئی چیز اللہ کی راہ میں خرچ کر کے اللہ کے دل تک راستہ بنانا چاہتے ہیں........؟؟؟ وہ مالک جس نے ہمیں یہ سب نعمتیں عطا کیں اس کی راہ میں خراب چیز دینا کیسی عجیب اور قابلِ مذمت بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے ایمان والو! خرچ کرو عمدہ چیزوں میں سے جو تم نے کمائیں اور اس سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالیں اور کوئی ردی چیز خرچ کرنے کا قصد نہ کرو حالانکہ اگروہی چیز کوئی شخص تمہیں دے تو ہرگز قبول نہ کرو مگر یہ کہ چشم پوشی کر جاﺅ اور جان لو کہ اللہ بے نیاز ہے اور کائنات کی سب چیزیں اس کی تعریف کر رہی ہیں۔“ (البقرہ:۷۶۲) عروہ بن زبیرt اپنے بیٹوں کو تلقین کیا کرتے تھے۔ ”میرے پیارے بیٹو! کبھی بھی اللہ کی راہ میں کوئی ایسی چیز بطور صدقہ نہ دینا جو تم اپنی قوم کے کسی عزیز کو دیتے ہوئے شرماﺅ۔“ 3 اللہ کی رضا کے لیے خرچ کیا جائے صدقہ کا مقصد صرف اور صرف رضائے الٰہی کا حصول ہونا چاہیے کہ یہی حقیقی نیکی ہے رب تعالیٰ نے متقین کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا:”اور تم اللہ کی رضا کے لیے ہی خرچ کرتے ہو۔“ یاد رہے کہ رضائے الٰہی کا حصول اور دنیوی مفاد دونوں کبھی یکجا نہیں ہو سکتے صدقہ کی اصل روح ہی یہی ہے کہ اسے خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے خرچ کیا جائے۔ باری تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے خرچ کرنے والوں کے حال کو کتاب فرقان میں اک پیاری مثال سے یوں بیان کیا گیا ہے۔ ”اور ان کی مثال جو اپنے مالوں کو اللہ کی رضا جوئی کے لیے دل جمعی کے ساتھ خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی بلند زمین پر ایک باغ ہو کہ اگر اس پر زور کا مینہ برسے تو دگنا پھل لائے اور اگر زور کا مینہ نہ برسے تو پھوار (ہی کافی ہوتی ہے) اور جو تم کام (خرچ) کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔“(البقرہ:۵۶۲) 4 ریا کاری سے اجتناب کیا جائے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے صرف اور صرف اللہ کی رضا مطلوب ہو نہ کہ اپنے مال کی نمائش مقصود ہو اور نہ ہی سخی کہلانے کی آرزو ہو۔ اگر ریا کاری کی نیت سے مال خرچ کیا جائے گا تو دنیا میں تو واہ واہ ہو جائے گی لیکن آخرت میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ یہ عذاب الٰہی کا باعث بنے گا۔ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اور اگر نیت ہی اچھی نہ ہوئی تو اس مال کو خرچ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا ایسے لوگوں کی مثال دیتے ہوئے اللہ نے فرمایا: ”وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کی خاطر خرچ کرتا ہے اور اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان نہیںرکھتا ایسے شخص کی مثال یوں ہے جیسے ایک صاف اور چکنا پتھر ہو جس پر مٹی کی تہہ جمی ہو پھر اس زور کا مینہ برساتو (مٹی بہہ گئی اور) صاف پتھر باقی رہ گیا۔ اس طرح خرچ کرنے سے اگر کچھ (ثواب) کماتے بھی ہیں۔ تو بھی ان کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔“ (البقرہ:۴۶۲) ریا کار کی چونکہ نیت ہی درست نہیں ہوتی اور نیت ہی اصل بیج ہے۔ لہٰذا ایسا بیج بار آور نہیں ہو سکتا.... ایسے لوگوں کے ساتھ روز قیامت بہت ہی برا معاملہ پیش آنے والا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہt ایک لمبی حدیث بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا: قیامت کے دن پہلا آدمی جس کا فیصلہ کیا جائے گا وہ ایک شہید ہو گا.... پھر ایک اور شخص کو لایا جائے گا جسے اللہ نے ہر قسم کے اموال سے نوازا تھا اللہ اسے اپنی نعمتوں کے بارے میں جتلائے گا جن کا وہ اعتراف کرے گا۔ پھر اللہ اس سے پوچھے گا۔ پھر تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا ”میں نے ہر اس راہ میں مال خرچ کیا جس میں تو پسند کرتا تھا۔“ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ”جھوٹ کہتے ہو تم تو اس لیے خرچ کرتے تھے کہ لوگ تمہیں سخی کہیں اور وہ تم کو دنیا میں کہا جا چکا پھر فرشتوں کو حکم ہو گا جو اسے گھسیٹتے ہوئے جہنم میںجا پھینکیں گے۔“(مسلم) 5 رشتہ

  2. #2
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default قرض حسنہ

    داروں کو ترجیح دی جائے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا: ”جس شخص کو یہ بات اچھی لگے کہ اس کا رزق کشادہ اور اس کی عمر دراز ہو وہ رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرے۔“(بخاری) اسی طرح قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”(اے نبی!) وہ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ کیا (کہاں) خرچ کریں تو آپ فرما دیجئے تم جو کچھ مفید مال خرچ کرو تو والدین کے لیے اور اقربا کے لیے اور یتیموں کے لیے اور مسکینوں کے لیے اور تم جو کچھ بھلائی کرو تو یقینا اللہ اس کا جاننے والا ہے۔“(البقرہ:۵۱۲) ہمارے رشتہ دار اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ ہم اپنے مال میں سے ان کو دیں جیسا کہ سیدنا ابوہریرہtنے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )سے پوچھا: ”کون سا صدقہ افضل ہے؟ “فرمایا: ”تنگ دست کا جو اپنی محنت میں سے صدقہ کرے اور ان سے ابتدا کرے جو تیرے زیرِ کفالت ہےں۔“ (ابو داﺅد) 6 تنگدستی کی حالت میں صدقہ دیا جائے صدقہ وہی بہتر ہے جو تب دیا جائے جب انسان خود محتاج ہو، خود تنگدست ہو، مال کے ہوتے ہوئے تو ہر کوئی صدقہ دے سکتا ہے لیکن حقیقی نیکی تو تب ہو گی ناں جب تنگدست ہوتے ہوئے صدقہ دیا جائے۔ جب رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )سے افضل صدقہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ(صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا: ”تنگ دست کا جو اپنی محنت میں سے صدقہ کرے“۔ ایک دفعہ ایک اور آدمی نے آپ(صلی اللہ علیہ وسلم )سے یہی سوال کیا کہ کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم )نے جواب دیا: ”جو صدقہ تو تندرستی کی حالت میں کرے جبکہ تو حرص رکھتا ہو اور فقر سے ڈرتا ہو اور دولت کی طمع رکھتا ہو۔ لہٰذا صدقہ کرنے میں جلدی کرو۔ ایسا نہ ہو کہ جان لبوں پر آ جائے تو کہنے لگو کہ اتنا فلاں کو دو اتنا فلاں کو دے دو۔ حالانکہ اس وقت مال اس کا نہیں اس کے وارثوں کا ہوتا ہے۔“(مسلم) سورة آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے متقین کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”وہ خوشحالی اور تنگدستی (دونوں حالتوں)میں خرچ کرتے ہیں۔“ 7 اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے والوں کو وعید اکثر صاحبِ حیثیت لوگوں کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اگر اللہ کو ان غریبوں، حاجت مندوں کی خوشحالی مقصود ہوتی تو وہ خود ہی ان کو مال و دولت عطا کر دیتا ....! یاد رہے دولت ڈھلتی چھاﺅں ہے جو اللہ دینے پر قادر ہے وہ چھین لینے پر بھی قادر ہے۔ اگر اس نے مال کی فراوانی عطا کر دی تو یہ اس کی طرف سے آزمائش ہے کسی کو دے کر آزماتا ہے تو کسی سے چھین کر.... مال کو جمع کر کے رکھنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”جس نے مال کو جمع کیا اور اسے گن گن کر رکھا وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ اسی کے پاس رہے گا۔ ہرگز نہیں وہ شخص تو چکنا چور کر دینے والی جگہ (دوزخ) میں پھینک دیا جائے گا۔“ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا: ”ہر روز صبح کے وقت دو فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اس طرح دعا کرتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اور زیادہ عطا کر اور دوسرا اس طرح بددعا کرتا ہے کہ اے اللہ!ہاتھ روکنے والے کو تلف کر دے۔“(بخاری) 8 فوائد و ثمرات 1آخرت کے لیے زاد راہ اور بخشش کا موجب:۔ صدقہ انسان کے لیے آخرت کے دن بخشش کا موجب اور بہترین زاد راہ ہو گا۔ جیسا کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا: ”صدقہ گناہ کو ایسے مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو۔ اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا: ”آگ سے بچو خواہ کھجور کا ایک ٹکرا صدقہ کرکے ہی۔“(بخاری) رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )جہنم میں عورتوں کی کثرت ہونے کی وجہ سے عورتوں کو صدقہ کی خصوصی تلقین کیا کرتے تھے۔ کیونکہ صدقہ اگر تمام آداب کو ملحوظ رکھ کر کیا جائے تو اللہ اس کا اجر کئی سو گنا بڑھا دیتے ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ صرف پاک مال قبول کرتا ہے تو جس نے پاک مال میں سے ایک کھجور برابر صدقہ کیا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اس کی یوں نشو و نما کرتا ہے جیسے تم اپنے بچھڑے کی کرتے ہو حتیٰ کہ وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔“ 2تزکیہ نفس:۔ کتاب ہدایت میں اللہ نے ارشاد فرمایا: ”ان کے مالوں سے صدقہ لیجئے تاکہ اس کے ساتھ انہیں پاک اور صاف کریں۔“ (توبہ:۰۱) مال کی محبت انسان کے اندر طمع، حرص،لالچ اور دوسرے انسانوں کے حقوق سلب کرنے کا باعث بنتی ہے۔ جبکہ خفیہ طور پر دیا جانے والا صدقہ تزکیہ نفس کے لیے ایک بہترین معاون ہے۔ 3رزق میں فراخی:۔ انفاق فی سبیل اللہ سے مال کی افزائش ہوتی ہے یہ گھٹتا نہیں بلکہ پھلتا پھولتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا: ”دو چیزیں جو دیکھنے میں کم ہوجاتی ہیں لیکن اصل میں وہ بڑھ رہی ہیں۔ ایک صدقہ اور دوسرا عاجزی اختیار کرنا۔“ (مسلم) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”مثال ان لوگوں کی جو اپنے مالوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ایک دانہ کی مثال ہے جس سے سات بالیاں اگیں ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے۔ (البقرہ:۱۶۲) اسی طرح حدیث قدسی میں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرماتے ہیں اللہ نے فرمایا: ”اے آدم کے بیٹے! تو (دوسروں پر) خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا۔“ (متفق علیہ) رزق میں فراخی کی ایک مثال اللہ نے یوں بیان فرمائی۔ ”اگر تم اللہ کو اچھا قرض دو تو وہ اسے تمہارے لیے کئی گنا بڑھا دے گا۔“ ایک اور جگہ فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے“ 4اللہ کی رضا کا حصول:۔ اگر صدقہ کے تمام آداب اور شرائط کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو یقینا یہ رضائے الٰہی کے حصول کا سبب بنتا ہے اور پھر جس انسان سے اللہ راضی ہو گیا اسے اس دنیا سے کچھ اور چاہیے....؟ اس سے زیادہ خوش نصیب کون ہو سکتا ہے ایسے شخص کو کوئی خوف و غم یا پریشانی نہیں ہوتی بلکہ قلبی اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ 5 سماجی و معاشرتی برائیوں کا انسداد:۔ اگر صدقہ نہ دیا جائے اور دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہی رہ جائے تو معاشرے کے اندر ان گنت سماجی و معاشی برائیاں جنم لیتی ہیں بدعنوانی اس معاشرے کا حصہ بن کر رہ جاتی ہے۔ ان تمام برائیوں کا انسداد صدقہ میں پوشیدہ ہے۔ اور صدقہ سے ہی معاشرے میں محبت و الفت کے جذبات جنم لتے ہیں ورنہ غریب امراءسے نفرت ہی کرتے ہیں لیکن امراءغریبوں کا خیال رکھیں تو یہی نفرت محبت میں بدل جاتی ہے اور معاشرے سے تمام برائیوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ صدقہ سے دولت معاشرے میں گردش کرتی ہے جس سے معاشی ترقی ہوتی ہے اللہ نے بھی مالداروں سے مخاطب ہو کر کہا ”یعنی دولت صرف تمہارے مالدار لوگوں میں ہی گردش نہ کرتی پھرے۔“ مالداروں کو حاجت مندوں کی کفالت کا بھی خصوصی اہتما م کرنا چاہیے۔

  3. #3
    MOHAMMEDIMRAN's Avatar
    MOHAMMEDIMRAN is offline Senior Member+
    Last Online
    17th September 2016 @ 11:52 AM
    Join Date
    19 Dec 2008
    Posts
    2,722
    Threads
    161
    Credits
    1,056
    Thanked
    313

    Default

    Nice Post

Similar Threads

  1. حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام
    By UltimateX in forum Islamic History aur Waqiat
    Replies: 22
    Last Post: 12th May 2015, 02:36 PM
  2. Replies: 17
    Last Post: 2nd January 2014, 10:04 AM
  3. Replies: 0
    Last Post: 23rd June 2011, 12:08 PM
  4. Replies: 6
    Last Post: 29th April 2011, 06:23 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •