قرض حسنہ نائلہ صادق قرض حسنہ یا انفاق فی سبیل اللہ کا معنی ہے۔ ”اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔“ اس سے مراد یہ کہ خلوصِ نیت سے اپنی حلال کمائی میں بغیر کسی ذاتی و دنیوی غرض کے ان مصارف پر خرچ کرنا جن پر اللہ نے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے یا جن پر خرچ کرنا مالک کو پسند ہے۔“ اور کسی بھی نیک کام میں خرچ کرنا اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہی ہے اورنیکی کی راہ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ کے کاموں میں خرچ کرنا بھی ہو سکتا ہے اور اس کے علاوہ بھی۔ ہر مسلمان کو صدقہ دینا ضروری ہے صحابہ y نے عرض کیا: ”یا رسول اللہ جس کے پاس مال نہ ہو“ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا: ”وہ ہاتھ سے محنت کر کے خود بھی فائدہ اٹھائے اور خیرات بھی کرے۔“ صحابہ کرامy نے عرض کیا: ” اگر یہ بھی نہ ہو سکے؟“ فرمایا: ”اچھی بات پر عمل کر ے اور بری بات سے پرہیز کرے اس کے لیے یہ بھی صدقہ ہے۔“ (بخاری) انفاق فی سبیل اللہ (صدقات نافلہ) کی اہمیت و ترغیب انفاق فی سبیل اللہ اسلام کے معاشی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی اسلام میں بہت اہمیت ہے۔ ربّ ذوالجلال نے فرمایا: ”اے ایمان والو! جو رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں وہ دن آنے سے پہلے اللہ کی راہ میں خرچ کر لو جس دن نہ خرید و فروخت ہو گی نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش۔“ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )عورتوں کو صدقہ خیرات کی بہت تلقین کیا کرتے تھے کہ یہی نیکی ہے جس کو بڑھانے کے وعدے اللہ نے قرآن میں کئے بہت پیارے انداز میں صدقات کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرمایا: ”ایسا کون شخص ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے، پھر اللہ اس کو کئی گنا بڑھا کر دیتا ہے۔“ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )سے سوال ہوا۔” کون سا صدقہ اجر و ثواب کے لحاظ سے بڑا ہے؟ “فرمایا:” جو رمضان المبارک میں دیا جائے۔“(ترمذی) اور خود رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )رمضان المبارک میں اس کثرت سے صدقہ و خیرات کرتے گویا تیز آندھی ہو۔ جب کہ ہمارا حال یہ ہوتا ہے کہ پہلے اپنے پیٹ اور گھر بھر لیں ہمسایہ چاہے بھوکا ہی کیوں نہ ہو.... جب کہ اللہ نے اپنے متقین کی صفت یوں بیان کی ہے۔ ”َ یُ¶±ثِرُو±نَ عَلٰٓی اَن±فُسِہِم± وَ لَو± کَانَ بِہِم± خَصَاصَةµ“(الحشر:۹) ”وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ خود فاقے سے ہوں۔“ اور ہم نے کبھی ایسے کیا کہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دی ہو....؟ اگر کبھی نہیں کیا تو چلیں اس رمضان میں کر کے دیکھتے ہیں اور اس کے لیے بہت سے طریقے اپنائے جا سکتے ہیں۔ ایک دو میں آپ کو بتاتی ہوں پہلے تو یہ کہ افطاری کے وقت کھانا بناتے ہوئے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے سالن میں تھوڑا پانی زیادہ ہمسایوں کے لیے، ڈالنے والی حدیث کو ذہن میں رکھیں.... اور دوسرا یہ کہ اگر اللہ نے آپ کو اتنی حیثیت دے رکھی ہے کہ آپ ایک غریب گھر میں راشن یعنی آٹا ، چینی، گھی وغیرہ دے سکتے ہیں۔ تو ایسا ضرور رکریں اگر آپ اکیلے ایسا نہیں کر سکتے تو زیادہ سے زیادہ پانچ صاحبِ حیثیت گھرانے مل کر اپنے محلے کے ایک غریب گھر کے فاقے زدہ بچوں کو تو روٹی دے سکتے ہیں.... آپ خود کو اس گھرانے کے لوگوں کی جگہ پر رکھ کر دیکھیں ان شاءاللہ فیصلہ آسان ہو جائے گاورنہ اس آیت کو ذہن میں رکھ لیں۔ ”لَن± تَنَالُوا ال±بِرَّ حَتّٰی تُن±فِقُو±ا مِمَّا تُحِبُّو±نَ“۔(آل عمران:۲۹) ہم بھی آج وہ حالات پیدا کر سکتے ہیں کہ کوئی امیر ہاتھ پر صدقہ و خیرات لے کر نکلے لیکن اسے لینے والا نہ ملے۔ لیکن اس کے لیے کرنا یہ ہو گا کہ دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دینے والی خصوصیت پیدا کرنی ہوں گی۔ یہ دنیا بھی جنتِ نظیر بن سکتی ہے۔ بس تھوڑا سا اپنی سوچوںکو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ 1 پاک مال خرچ کیا جائے اس بات کا خاص خیال رہے کہ جو مال ہم اللہ کی راہ میں خرچ کر رہے ہیں۔ 1وہ حلال طریقے سے کمایا گیا ہو۔ 2ظلم و زیادتی سے حاصل نہ کیا گیا ہو۔ 3دھوکے کا مال نہ ہو۔ 4اس میں حرام کی آمیزش نہ ہو۔ بلکہ پاک مال خرچ کیا جائے کیونکہ مالک کو حرام مال پسند نہیں۔ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ صرف پاک مال قبول کرتا ہے“۔(بخاری ومسلم) 2عمدہ مال خرچ کیا جائے اللہ کی راہ میں اپنے مال کا سب سے عمدہ حصہ خرچ کرنا چاہیے۔ جب کہ اس معاملے میں ہمارا حال یہ ہوتا ہے کہ جو چیز ردی ہو گئی، ناکارہ ہو گئی اور جسے ہم نے اپنے استعمال کے قابل نہ سمجھا وہ اٹھا کر اللہ کی راہ میںدے دیتے ہیں تو کیا ہم اپنے دل سے اتری ہوئی چیز اللہ کی راہ میں خرچ کر کے اللہ کے دل تک راستہ بنانا چاہتے ہیں........؟؟؟ وہ مالک جس نے ہمیں یہ سب نعمتیں عطا کیں اس کی راہ میں خراب چیز دینا کیسی عجیب اور قابلِ مذمت بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے ایمان والو! خرچ کرو عمدہ چیزوں میں سے جو تم نے کمائیں اور اس سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالیں اور کوئی ردی چیز خرچ کرنے کا قصد نہ کرو حالانکہ اگروہی چیز کوئی شخص تمہیں دے تو ہرگز قبول نہ کرو مگر یہ کہ چشم پوشی کر جاﺅ اور جان لو کہ اللہ بے نیاز ہے اور کائنات کی سب چیزیں اس کی تعریف کر رہی ہیں۔“ (البقرہ:۷۶۲) عروہ بن زبیرt اپنے بیٹوں کو تلقین کیا کرتے تھے۔ ”میرے پیارے بیٹو! کبھی بھی اللہ کی راہ میں کوئی ایسی چیز بطور صدقہ نہ دینا جو تم اپنی قوم کے کسی عزیز کو دیتے ہوئے شرماﺅ۔“ 3 اللہ کی رضا کے لیے خرچ کیا جائے صدقہ کا مقصد صرف اور صرف رضائے الٰہی کا حصول ہونا چاہیے کہ یہی حقیقی نیکی ہے رب تعالیٰ نے متقین کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا:”اور تم اللہ کی رضا کے لیے ہی خرچ کرتے ہو۔“ یاد رہے کہ رضائے الٰہی کا حصول اور دنیوی مفاد دونوں کبھی یکجا نہیں ہو سکتے صدقہ کی اصل روح ہی یہی ہے کہ اسے خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے خرچ کیا جائے۔ باری تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے خرچ کرنے والوں کے حال کو کتاب فرقان میں اک پیاری مثال سے یوں بیان کیا گیا ہے۔ ”اور ان کی مثال جو اپنے مالوں کو اللہ کی رضا جوئی کے لیے دل جمعی کے ساتھ خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی بلند زمین پر ایک باغ ہو کہ اگر اس پر زور کا مینہ برسے تو دگنا پھل لائے اور اگر زور کا مینہ نہ برسے تو پھوار (ہی کافی ہوتی ہے) اور جو تم کام (خرچ) کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔“(البقرہ:۵۶۲) 4 ریا کاری سے اجتناب کیا جائے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے صرف اور صرف اللہ کی رضا مطلوب ہو نہ کہ اپنے مال کی نمائش مقصود ہو اور نہ ہی سخی کہلانے کی آرزو ہو۔ اگر ریا کاری کی نیت سے مال خرچ کیا جائے گا تو دنیا میں تو واہ واہ ہو جائے گی لیکن آخرت میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ یہ عذاب الٰہی کا باعث بنے گا۔ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اور اگر نیت ہی اچھی نہ ہوئی تو اس مال کو خرچ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا ایسے لوگوں کی مثال دیتے ہوئے اللہ نے فرمایا: ”وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کی خاطر خرچ کرتا ہے اور اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان نہیںرکھتا ایسے شخص کی مثال یوں ہے جیسے ایک صاف اور چکنا پتھر ہو جس پر مٹی کی تہہ جمی ہو پھر اس زور کا مینہ برساتو (مٹی بہہ گئی اور) صاف پتھر باقی رہ گیا۔ اس طرح خرچ کرنے سے اگر کچھ (ثواب) کماتے بھی ہیں۔ تو بھی ان کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔“ (البقرہ:۴۶۲) ریا کار کی چونکہ نیت ہی درست نہیں ہوتی اور نیت ہی اصل بیج ہے۔ لہٰذا ایسا بیج بار آور نہیں ہو سکتا.... ایسے لوگوں کے ساتھ روز قیامت بہت ہی برا معاملہ پیش آنے والا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہt ایک لمبی حدیث بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا: قیامت کے دن پہلا آدمی جس کا فیصلہ کیا جائے گا وہ ایک شہید ہو گا.... پھر ایک اور شخص کو لایا جائے گا جسے اللہ نے ہر قسم کے اموال سے نوازا تھا اللہ اسے اپنی نعمتوں کے بارے میں جتلائے گا جن کا وہ اعتراف کرے گا۔ پھر اللہ اس سے پوچھے گا۔ پھر تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا ”میں نے ہر اس راہ میں مال خرچ کیا جس میں تو پسند کرتا تھا۔“ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ”جھوٹ کہتے ہو تم تو اس لیے خرچ کرتے تھے کہ لوگ تمہیں سخی کہیں اور وہ تم کو دنیا میں کہا جا چکا پھر فرشتوں کو حکم ہو گا جو اسے گھسیٹتے ہوئے جہنم میںجا پھینکیں گے۔“(مسلم) 5 رشتہ
Bookmarks