Page 1 of 2 12 LastLast
Results 1 to 12 of 13

Thread: طلاق کی شرح میں بڑھتاہواخوفناک اضافہ

  1. #1
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default طلاق کی شرح میں بڑھتاہواخوفناک اضافہ

    محاورات اورضرب الامثال اگرچہ آسمانی صحیفوں کاحصہ نہیں تاہم یہ نسل انسانی کے صدیوں کے تجربات کانچوڑ ضرورہیں ‘اس لئے محاورات اور ضرب الامثال کی سچائی کوجھٹلانا آسان نہیں ہے۔ انہی محاورات میں سے ایک محاورہ ہے ”ہر چمکتی چیزسونا نہیں ہوتی“یعنی بظاہر روشن اورچمکدارنظرآنے والی ہرچیزسونا نہیں ہوتی “ اس لئے کہ اکثراوقات بظاہرروشن اور چمکدارنظر آنے والی چیزوں کی حقیقت اوران کا پس منظر وپیش منظرکچھ اورہوتاہے۔جیساکہ موجودہ حکومت کی روشن خیالی مہم ہے۔ ممکن ہے روشن خیالی کی یہ مہم کچھ لوگوں کوبھلی لگ رہی ہوگی اور آنکھوں کو اس نے خیرہ کررکھاہوگا اورممکن ہے کچھ لوگ اس کی ظاہری چمک دمک پرنثاربھی ہورہے ہوں گے مگر درحقیقت نتائج کے اعتبار سے”روشن خیالی کی یہ مہم بڑی تباہ کن اورخوفناک ہے۔ موجودہ حکومت کی”عورتوں کے لئے آزادی اورانصاف کی فوری فراہمی“ بھی اس روشن خیالی کی مہم کاایک اہم حصہ ہے۔عورتوں کی آزادی اوران کے لئے انصاف کی فوری فراہمی کے خلاف کوئی ذی شعور نہیں ہوسکتابشرطیکہ یہ اسلام کی حدودمیں رہتے ہوئے ہو۔دیکھنایہ ہے کہ جنرل(ر)پرویزمشرف کی طرف سے عورتوں کی آزادی اور انصاف کی فوری فراہمی کی مہم کیاہے....؟؟ یہ مہم درحقیقت پاکستان کے مسلم معاشرہ کے مشترکہ خاندانی نظام کوتباہ کرنے کی خوفناک سازش ہے تاکہ مغرب کی طرح یہاں بھی مادرپدر آزاد معاشرہ قائم ہوجائے اورعورت چراغ خانہ کی بجائے شمع محفل اوربازار کی جنس بن جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہمارے ملک میں محبت کی شادیوں کے حق میں فضاہموار کی جارہی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام تباہ کرنے کے لئے طلاق کاعمل آسان ترکردیاگیا: انسانی اورخاندانی معاملات سے تعلق رکھنے والے قوانین اتنے پیچیدہ ہیں کہ ان میں فوری انصاف کاحصول مشکل ترین نہیں تو مشکل ترضرورہے جبکہ طلاق کے معاملات کوروشن خیالی کے دورمیں انتہائی آسان کردیاگیاہے۔عائلی قوانین میں ان تبدیلیوں کوعورتوں کی آزادی اورفوری انصاف قرار دیا گیا ہے۔چنانچہ آزادی اورفوری انصاف کی مہم کا نتیجہ ہے کہ اس وقت صرف لاہور شہرمیں ہرروز30 خواتین ازدواجی زندگی کے بندھن سے آزاد ہورہی ہیں۔ اسلام نے طلاق کوجائز کاموں میں سے سب سے ناپسندیدہ قرار دیاتھا لیکن اب ہمارے ہاں یہ ناپسندیدہ کام آسان ترین کام بنتاجارہاہے اوراسے حق سمجھ کر استعمال کیاجارہاہے۔ 1964ءکے عائلی قوانین میں یہ تھاکہ جب عورت کی طرف سے خلع کادعویٰ دائر ہوتاتو عورت کوخلع کی وجوہات شہادت کے ذریعے ثابت کرنی پڑتی تھیں۔عدالتیں گواہوں کے بیانات قلمبند کرتیں‘گواہوں پرجرح ہوتی اور پھروکلاءکی بحث کے بعد عدالتیں فیصلہ سناتیں۔ اس طرح طلاق کے لینے اوردینے پرکچھ وقت ضرور لگتاتھا مگریہی وقت اکثر باہمی رضامندی کا سبب بن جاتاتھا۔ مناسب وقت ملنے‘خاندان‘ پڑوس یااہل علاقہ کی کوششوں سے فریقین میں صلح ہوجاتی۔اس طرح ایک خاندان ٹوٹنے اور بچے در بدر ہونے سے بچ جاتے۔پھردنیا میں گلوبلائزیشن کی ہواچلی اورصلیب برداربش اسلامی دنیا کوفتح کرنے کے لئے کمربستہ ہوا۔اس مقصدکی خاطر ایک طرف تو لشکر کشی کے منصوبے بنے اور دوسری طرف اسلامی معاشروں کوشکست وریخت سے دوچار کرنے کے پروگرام بنائے گئے ۔پاکستان میں اس مذموم مہم کے تحت فیملی کورٹس ایکٹ میںاکتوبر 2005ءدفعہ (4)Provison 10کے تحت تبدیلی لائی گئی ۔اس تبدیلی کے تحت اب خلع کے لئے کوئی وجہ بتانے کی ضرورت نہیں۔بس یہ ہے کہ خاوندایک دفعہ عدالت میں حاضرہوجائے اور جواب دعویٰ دائرکردے توعدالت مابین فریقین صلح کروانے کی کوشش کرے گی ۔اگرصلح نہ ہوسکے توخلع کی ڈگری جاری کردی جائے گی۔ اگرمعاملہ یہاں تک ہی رہتاتوشاید کسی حدتک قابل قبول تھا۔ موجودہ تبدیلی کے بعدخلع کا اب ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ عورت پورے پاکستان میں کہیں بھی اور کسی بھی ایسے شہرکے فیملی کورٹس میں خلع کادعویٰ دائر کرسکتی ہے جہاں اس نے کسی وقت میں عارضی رہائش رکھی ہو ۔عارضی رہائش کی تعریف میں ایک دن بھی شامل ہے۔ جب ایسے شہر میں جا کر عورت خلع کادعویٰ دائرکرتی ہے توخاوند کو بعض اوقات معلوم بھی نہیں ہوپاتا اور عورت کے حق میں فیصلہ ہوجاتاہے۔ عائلی قوانین میں تبدیلی کی یہ تباہ کن آواز انسانی حقوق کی بعض نام نہاد تنظیموں نے اٹھائی اوراسلام آباد میں براجمان حکمرانوں نے اس مہم کی پوری سرپرستی کی ۔چنانچہ پاکستان لاءکمیشن کواوپر سے تبدیلی کے لئے ہدایات جاری کی گئیں۔ جسٹس افتخار محمدچوہدری نے فیملی کورٹس ایکٹ میں کی جانے والی اس تبدیلی پر ناپسندیدگی کااظہار کیااوراس تبدیلی کوواپس لینے کی ہدایات بھی جاری کیںتاہم انہیں کوئی کامیابی نہ ہوسکی اوران کی مخالفت کے باوجودفیملی کورٹس کے سیکشن 10میں تبدیلی کردی گئی۔ پرویز مشرف حکومت کی طرف سے کی جانے والی ترامیم کانتیجہ ہے کہ اب عدالتیں خلع اورطلاق کی ڈگریاں ریوڑیوں کی طرح بانٹ رہی ہیں۔ کہتے ہیں کہ حرکت میں برکت ہوتی ہے‘ سوحکومت نے عائلی قوانین میں اکتوبر 2002ءمیں جو تبدیلی کی ‘اس حرکت سے یہ”برکت‘ ہوئی کہ گذشتہ پانچ سالوں میں50ہزار سے زائد خواتین نے خلع کے لئے عدالتوں سے رجوع کیا‘ صرف لاہورشہرمیں گذشتہ سال12,000 کے قریب خلع اورطلاق کے کیس دائر ہوئے۔ طلاق وخلع کے نقصانات ومضمرات: جب خاوند بیوی کے درمیان کشیدگی انتہا کو پہنچ جائے تواکثر اوقات اس کاانجام طلاق ہوتی ہے۔ ایسی صورت میںاسلام نے طلاق کافلسفہ یہ بیان کیاہے کہ مزیدکشیدگی ‘ تنازع اور جھگڑا سے بچاجاسکے اورخاوندبیوی بطریق احسن ایک دوسرے کی زندگی سے نکل جائیںمگرہمارے معاشرے میں اس کے بالکل الٹ ہوتاہے۔طلاق آگ کاایک عذاب بن جاتی ہے۔ اس آگ کی لپیٹ میں دونوں خاندان یا لڑکی کاخاندان یاپھرمطلقہ خاتون بری طرح جھلستے اورجلتے ہیں۔کئی قسم کی گھریلو اور معاشی پریشانیاں جنم لیتی ہیں ۔اکثراوقات طلاق خودکشی اور قتل کا سبب بن جاتی ہے۔جن والدین کے درمیان طلاق واقع ہوجاتی ہے‘ ان کے بچے معمول کی زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتے‘وہ عدم توازن اور عدم تحفظ کاشکار ہوجاتے ہیں۔ ان کی تعلیمی اورمعاشرتی کارکردگی متاثرہوتی ہے۔ ان میں اعتماد اور خودداری کافقدان رہتاہے۔ طلاق یافتہ والدین کے بچے مفید اورکارآمد شہری نہیں بن سکتے۔ نفسیاتی اور دماغی امراض کے ہسپتالوں میں کئے گئے سروے کے مطابق دماغی اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہونے والے مریضوں میں بڑی تعداد ایسے افراد کی ہوتی ہے جوطلاق کی وجہ سے بچپن میں والدین کی شفقت سے محروم ہوجاتے ہیں۔یہ محرومی بچوں میں احساس محرومی پیدا کرتی ہے اور یہی احساس محرومی بچوں کو جرائم کی طرف راغب کرنے کاسبب بنتی ہے۔ طلاق کے اسباب وعوامل: اب سوال یہ ہے کہ طلاق کیوں ہوتی ہے؟ ہنستا بستاگھر کیوں اجڑجاتاہے؟ طلاق کے اسباب وعوامل اورمحرکات کیاہیں....؟اورکون سا طریقہ ہے جس سے طلاق کی شرح کوکم کیاجاسکتا ہے....؟ ہمارے معاشرے میں طلاق کی عمومی وجوہات یہ ہیں۔ مثلاً جہیز‘وٹہ سٹہ کی شادی‘ شوہراوربیوی میں سے کسی ایک کااپنی حدود سے تجاوز کرنایااپنے حقوق کی ادائیگی سے پہلوتہی کرنا‘بے جاغصہ اور بے جابحث وتکرار‘کسی تیسر ے شخص کاخاوند اور بیوی کی زندگی میں نقب لگانا۔بعض دفعہ طلاق کا سبب لڑکی یالڑکے کے والدین بن جاتے ہیں۔ لڑکی کے والدین غلطی پراپنی بیٹی کی سرزنش کرنے کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں‘ یہی صورت کبھی لڑکے کے والدین کی طرف سے پیش آتی ہے۔ وہ اپنی ذاتی انااورمفادات کے لئے لڑکے کوبھڑکاتے رہتے ہیں۔بعض اوقات لڑکے اورلڑکی کا سٹیٹس بھی طلاق کی وجہ بن جاتاہے۔ مثلاً اگر لڑکا امیر خاندان کاہو اور لڑکی کاتعلق غریب خاندان سے ہو توایسی لڑکی کاجینا محال کردیاجاتاہے۔ اسی طرح امیراورخودمختارلڑکی کاغریب لڑکے سے نباہ مشکل ہوجاتاہے۔ وہ جہیز‘دولت اوراعلیٰ تعلیم کے زعم میں خاوند کوگھٹیا اورکمترسمجھتی ہے۔ملازمت پیشہ خواتین کی ملازمت بھی طلاق کاسبب بنتی ہے۔ پاکستان میں موجودترقی پسندخواتین کی روشن خیال این جی اوز کی خواتین کے بقول طلاق کی بڑی وجہ جہالت‘خواتین پربے جاپابندیاں‘ شعور کی کمی اورمرد کی دوسری شادی ہے۔یہ خواتین اس بات کااظہار کرتی ہیں کہ پاکستان میں طلاق کی شرح میں خوفناک حدتک اضافہ ہورہاہے۔ ان خواتین کے نردیک اس صورتحال کے ازالہ اور تدارک کی ایک ہی صورت ہے یعنی جہالت کا خاتمہ اور دوسری شادی کی حوصلہ شکنی۔ جہاں تک جہالت کے خاتمہ کاتعلق ہے‘ اس میں کسی کوکوئی اختلاف نہیں۔ واقعی جہالت کاخاتمہ ہوناچاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ روشن خیال خواتین کے نزدیک جہالت کے خاتمہ سے کیامرادہے....؟ ان کے نزدیک جہالت کے خاتمہ کامطلب ہے .... ”پردہ اورحدود وقیودکاخاتمہ ‘لڑکیوں کے گھروں سے بھاگنے اورکورٹ میرج کرنے کی حوصلہ افزائی۔“جہاں تک دوسری شادی کاتعلق ہے‘ اس میں بھی ترقی پسند خواتین کادہرا معیار ہے۔ مثلاً پاکستان میں بیگم رعنالیاقت علی خان عورتوں کی آزادی کی پہلی علمبردار خاتون تھیں جنہوں نے اپواکی بنیاد رکھی ۔اس کے بعدوہ اپواکے پلیٹ فارم سے سرکاری چھتری تلے خواتین کی نام نہاد آزادی کے لئے کوششیں کرتی رہیں۔ بیگم رعنا کے نزدیک مرد کا دوسرا نکاح کرنا بہت بڑاجرم تھا‘ وہ مرد کی دوسری شادی کو خواتین کے حق پرڈاکہ سمجھتی تھیں لیکن ان کا اپنا عمل‘فعل اور کردار اس کے برعکس تھا۔ وہ خود لیاقت علی خان کی دوسری بیوی تھیں۔اسی طرح بیگم نصرت بھٹواپنے وقت میں خواتین کی آزادی کی علمبردار اور مرد کی دوسری شادی کے خلاف آواز اٹھاتی رہیں جبکہ وہ خود ذوالفقار علی بھٹو کی دوسری بیوی تھیں۔ طلاق کی ایک وجہ طبقاتی تقسیم کے مسائل ہیں‘سماجی اور معاشی اعتبار سے پاکستانی عوام کو تین طبقوں میں تقسیم کیاجاتا ہے‘ امیرترین طبقہ‘ درمیانہ اورغریب وپسماندہ طبقہ۔اعلیٰ طبقہ کے مرد ہوں یا خواتین ان میں تعلیم عام ہے۔درمیانہ طبقہ میں تعلیم کارجحان توہوتاہے مگر وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے اس طبقہ کے لوگ عموماً اپنے بچوں کواعلیٰ تعلیم دلانے سے محروم رہتے ہیں ۔ تیسرے طبقہ میں تعلیم کارجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر ان کے بچے تعلیم حاصل کربھی لیں تووہ بس برائے نام ہوتی ہے۔ یہ خیال عام ہے کہ پسماندہ طبقہ میں جہالت سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے ان تین طبقات میں طلاق کی شرح کیاہے....؟ ”عورت فا¶نڈیشن“ روشن خیال خواتین کی NGO ہے۔ یہ فا¶نڈیشن خواتین کے حقوق کی پاسداری اورجہالت کے خاتمہ کے لئے کام کررہی ہے۔ اس فا¶نڈیشن کی ایک ذمہ دار جوکہ عرصہ 13سال سے فا¶نڈیشن سے وابستہ ہیں اور فا¶نڈیشن کی طرف سے نکاح‘طلاق وغیرہ کے معاملات ڈیل کرتی ہیں‘ان کا کہناہے

  2. #2
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default طلاق کی شرح میں بڑھتاہواخوفناک اضافہ

    کہ طلاق کی شرح کا سبب ”جہالت اور تعلیم کی کمی ہے۔“جب ان سے پوچھاگیاکہ پاکستان میں پائے جانے والے تین طبقات میں سے کس طبقہ میں طلاق کی شرح سب سے زیادہ ہے؟ خاتون کا جواب حیران کن تھا۔ کہنے لگیں”کچھ اعدادوشمار وہ ہیں جودفتروں میں بیٹھ کر تیار کئے جاتے ہیں اورکچھ کا تعلق حقائق و واقعات کی دنیاسے ہے۔ حقائق کی دنیا کے اعدادو شمار یہ ہیں کہ طلاق کی سب سے زیادہ شرح اس طبقہ میں پائی جاتی ہے جسے عرف عام میں انتہائی پڑھالکھا‘اعلیٰ تعلیم یافتہ ‘روشن خیال اور امیر ترین طبقہ سمجھاجاتاہے جبکہ طلاق کی سب سے کم شرح درمیانہ طبقہ میں ہے۔اس لئے کہ اعلیٰ طبقہ کے مردوخواتین بالعموم انسانی جذبات اور احساسات سے عاری ہوتے ہیں اور درمیانہ طبقہ کی خواتین ومرد ایثار ووفاکے پیکر ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس جب درمیانہ طبقہ سے تعلق رکھنے والی کوئی خاتون خاوند کے ساتھ اپنی ناچاقی کامسئلہ لے کرآتی ہے توہم اس سے پوچھتے ہیں ”بی بی! بتا¶ اب تم کیاچاہتی ہو‘ کیاخاوند سے طلاق لینا چاہتی ہو؟“اس کاجواب ہوتاہے‘ نہیں میں طلاق نہیں لیناچاہتی‘ اگرمجھے طلاق ہوگئی تو میرے والدین پرکیا گزرے گی‘وہ میری طلاق کی خبر سن کر جیتے جی مرجائیں گے۔یہ صدمہ میرے والدین کے لئے جان لیواثابت ہوگا۔ پھر میری چھوٹی بہنیں ہیں ‘اگرمیری زندگی پرطلاق کاٹیکہ لگ گیا تومیری چھوٹی بہنوں کا کوئی رشتہ نہیں لے گا۔وہ ساری زندگی گھر بیٹھی رہیں گی۔اس لئے میں طلاق نہیں لیناچاہتی بلکہ میری خواہش ہے کہ خاوند سے میری صلح ہوجائے۔“ اسی طرح درمیانہ طبقہ کے مردبھی طلاق کی بجائے صلح اور مفاہمت کے راستہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ جہا ں تک اعلیٰ طبقہ کاتعلق ہے‘ اس میں تعلیم کی شرح جتنی زیادہ ہے ‘انسانی جذبوں اور رشتوں کے احترام کااتناہی فقدان ہے۔ اس طبقہ میں شقاوت قلبی اور انسانی رشتوں کی پامالی کی ایسی ایسی مثالیں دیکھنے میں آتی ہیں کہ جنہیں دیکھ اور سن کر انسان حیران وپریشان ہوکر رہ جاتاہے۔ ہمارے پاس ایک کیس آیا۔ مرد اعلیٰ تعلیم یافتہ اوراعلیٰ سرکاری عہدے پرتھا۔ اس کی بیوی سکول کی پرنسپل تھی لیکن اس کاتعلق درمیانہ طبقہ سے تھا۔ تعلیم یافتہ خاوندکواپنے محکمہ میں مزید Promotionملی تواس کے دماغ کو دولت اور اختیارات کاخمار چڑھ گیا۔ اس کی آنکھوں کو نئے نئے اور خوبصورت چہرے بھانے لگے۔ شریف زادی بیوی نے روک ٹوک کی توخاوند نے طلاق کا طوق اس کے گلے میں ڈال دینے کا ارادہ کرلیا۔ حالانکہ اس کی تین بچیاں بھی تھیں جو جوانی کی دہلیز پرقدم رکھ چکی تھیں لیکن باپ کودولت اورعہدے کے نشے نے اندھا کررکھا تھا ۔وہ نہ اپنی بیوی کی پرواہ کرتااور نہ اسے معصوم بچیوں کی معصومیت کاخیال تھا۔“ یہ اعلیٰ طبقہ کے صرف ایک مرد کی مثال ہے۔ جہاں تک اس طبقہ کی خواتین کاتعلق ہے‘ وہ بھی انسانی رشتوں کی پامالی میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ اس طبقہ کے تمام مرد اور خواتین ایک جیسے ہیں۔بلاشبہ اس طبقہ میں بھی ہزاروں شریف النفس اورمثالی جوڑے موجود ہیں۔ تاہم طلاق کی شرح کاتناسب بھی اسی طبقہ میں زیادہ ہے۔دوسری طرف درمیانہ طبقہ میں بھی انتہائی خودغرض‘ بے رحم اور شقی القلب لوگ موجود ہیں۔ فیملی کورٹس میں میری ایک ایسے سفید پوش شخص سے بھی ملاقات ہوئی جواپنے بھائی کا ڈسا ہوا تھا۔اس کیس میں گھر بربادکرنے والابڑا اور جس کاگھربربادہوا ‘وہ چھوٹابھائی ہے۔ چھوٹا بھائی کہتاہے کہ میں نے بڑے بھائی کو صرف بھائی ہی نہیں بلکہ باپ کادرجہ دے کر اس پراعتماد کیالیکن بڑے بھائی نے میرا گھر برباد کردیا۔اسے نہ مجھ پر رحم آیااورنہ میری بچی پر جس کی عمر ابھی صرف دوسال ہے اورنہ ہی اس نے ماں باپ کی عزت کی لاج رکھی۔اب میری بیوی مجھ سے طلاق لے کر میرے بھائی سے شادی کرنے کی خواہشمندہے۔ جہاں تک تیسرے طبقہ کاتعلق ہے‘ بلاشبہ طلاق کی شرح اس میں بھی بہت زیادہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہوگی کہ پاکستان کی آبادی کابڑا حصہ اسی غریب طبقہ پر مشتمل ہے جبکہ مراعات یافتہ اوراعلیٰ طبقہ اس کے مقابلے میں بہت محدود ہے۔جب دونوں طبقوں کا تعداد کے اعتبار سے تناسب نکالاجائے گا تو معلوم ہوگاکہ طلاق کی شرح پہلے یعنی امیر طبقہ میں زیادہ ہے۔ اگرروشن خیال NGO کایہ دعویٰ درست تسلیم کرلیاجائے کہ طلاق کا سبب تعلیم وشعور کی کمی اور جہالت کی فراوانی ہے توپھر سوال یہ ہے کہ پڑھے لکھے اوراعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ میں طلاق کی شرح کیوں زیادہ ہے؟ اس ضمن میں ہمارے سامنے امریکہ کی مثال ہے۔ اس وقت امریکہ میں خواندگی کی شرح100فیصد ہے ۔تعلیم عام اور دولت کی فراوانی ہے۔ امریکہ سپرپاور ہونے کا دعویدار ہے اور سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے۔ آئیے!دیکھتے ہیں کہ امریکہ میں طلاق کی شرح کیاہے؟ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ دنیامیں سب سے زیادہ اگرکسی ملک میں طلاق کے کیس واقع ہورہے ہیں تووہ امریکہ ہے۔ وہاں طلاق کی شرح ساڑھے چھ لاکھ سالانہ ہے۔ طلاق کاسدباب کیسے؟ طلاق کامسئلہ پوری دنیا میں گھمبیر صورت اختیار کرچکاہے۔ یورپی ممالک ملت اسلامیہ میں خاندانی نظام کے حصے بخرے کررہے ہیں اور ہروہ قدم اٹھارہے ہیں جس سے معاشرہ ٹوٹ جائے اور خاندان بکھرجائے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جب سے روشن خیالی کی مہم چلی ہے‘ کورٹ میرج کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے‘ انہیں ‘ہیرو اور ہیروئن کے طورپر پیش کیاجاتاہے اور کورٹ میرج کاکوئی پیچیدہ کیس تنازعہ کی شکل اختیار کرلے تومغربی ممالک ایسے جوڑوں کوتحفظ بھی دیتے ہیں اور پناہ بھی۔ دوسری طرف یورپی ممالک کے دانشور اپنے ملکوں میں خاندانی نظام ٹوٹنے اور طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سے پریشان ہیں۔اب وہاں طلاق کی روک تھام کے لئے غوروفکرکیاجارہاہے جبکہ اسلام نے1400 سال پہلے ہی طلاق کوناپسندیدہ اور مکروہ فعل قرار دے دیاتھا۔ اسلام عورت کومعاشرے میں تکریم دیتا ہے۔ اس کی تذلیل نہیں کرتا‘اسے وقار دیتا ہے ‘ بے وقارنہیں کرتا‘اسے احترام دے کربے حرمتی کے تمام رخنے بند کرتاہے۔اسلام نے عورت کی عزت وتکریم کاکس قدر اہتمام کیاہے‘ اس کا اندازہ 15-10-2006 کوبرطانیہ کے معتبراخبارروزنامہ گارڈین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے لگایا جاسکتاہے۔ اخبار لکھتاہے کہ”حجاب اوڑھنے والی خواتین نہ صرف بیماریوں سے محفوظ رہتی ہیں بلکہ آوارہ لوگوں کی نظربدسے بھی محفوظ رہتی ہیں۔“ گویا اسلام نے عورت کومعاشرے میں جواحترام اور مقام دیاہے اس کااعتراف اسلام کے دشمنوں کوبھی ہے۔ جب ہمارے پاس عورت کو احترام دینے والی اسلام جیسی دولت موجود ہے توپھر ہمیں مغربی تہذیب سے مستعار نسخے لینے کی کیا ضرورت ہے....؟ اب سوال یہ ہے کہ ہمیں اپنے ملک اور معاشرے میں طلاق کی روک تھام کے لئے کیا کرنا چاہئے۔جب کسی بیمار کاعلاج کرنا ہوتوسب سے پہلے بیماری کی تشخیص کی جاتی ہے۔ اس لئے کہ تشخیص کے بغیرکوئی بڑے سے بڑا ڈاکٹر بھی بیماری کاعلاج نہیں کرسکتا۔ سواس ضمن میں پہلی بات ہے ‘طلاق کے اسباب ومحرکات اور عوامل! گزشتہ صفحات میں طلاق کے بہت سے اسباب وعوامل کاذکر ہوچکاہے۔ لیکن طلاق کااصلی‘ سب سے اہم اوربڑا سبب ہے‘ شریعت اسلامیہ سے انحراف۔ مثلاً بیوی خلع کی خواہشمند ہے‘ وہ کہتی ہے خاوند نشہ کرتاہے جس کی وجہ سے گھر میں فاقے ہیں‘بچے بھوکے مررہے ہیںلہٰذا میں ایسے نکھٹوشوہر کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ خاوند کہتا ہے‘ میں بیوی کوطلاق دیناچاہتا ہوں‘اس لئے کہ وہ بدچلن ہے‘میرے والدین کی عزت نہیں کرتی‘ بچوں کی تربیت کی کماحقہ ذمہ داری پوری نہیں کررہی۔ ایک اورخاوند ہے جوبیوی کو جہیز نہ لانے یاکم لانے کی وجہ سے طلاق دے دیتاہے۔ ایک خاندان میں طلاق کی وجہ وٹہ سٹہ کی شادی بن گئی ۔ایسی تمام وجوہات میں یہ بات بخوبی واضح ہو رہی ہے کہ فریقین میں سے کسی ایک نے شریعت اسلامیہ سے انحراف کیا اور شریعت کے حکم کی خلاف ورزی کی۔وٹہ سٹہ کی شادی اسلام میں منع ہے‘جہیز کااسلام میں کوئی تصورنہیں‘نشہ اسلام نے حرام قرار دیاہے۔ عورت کے لئے پاکدامنی اختیار کرنااوربسترکی حفاظت اسلام کاحکم ہے۔ جو مرد یاعورت اس کے برعکس کرے گا‘ گویا وہ شریعت اسلامیہ سے انحراف کامرتکب ہورہاہے۔ جب وہ شریعت اسلامیہ سے انحراف کرے گا تو اس کاانجام پریشانی ‘رسوائی ‘بربادی اورطلاق ہے۔ سوطلاق کی شرح کنٹرول کرنے کاایک ہی طریقہ ہے کہ ہرمرد اور عورت اسلام کی حدود میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کی پاسداری کرے۔جہاں تک گھروں میں معمولی تنازعات اور اختلافات کاتعلق ہے ‘یہ چیزیں انسانی فطرت کاحصہ ہیں۔ بہت کم لوگ ان چیزوں سے مبراہوتے ہیں۔اس لئے کہ زندگی ایثار اور قربانی کانام ہے۔بقول شخصے اپنی تو یہ مثال ہے کہ جیسے کوئی درخت اوروں کو سایہ بخشے اور خود دھوپ میں جلے عورتوں کے لئے حضرت خدیجہ کی مثال کافی ہے کہ جنہوں نے رسول اللہ کی رضاکے لئے اپنی ساری دولت اللہ کے راستے میں قربان کرکے اپنے لئے فاقوں بھری زندگی کوپسند کیا اور مردوں کے لئے رسول اللہeکا یہ واقعہ بطورمثال کافی ہے کہ غزوہ بدر کے موقعہ پر جب مال غنیمت اکٹھا ہواتواس میں سونے کاایک کڑا بھی تھا۔ وہ کڑا دیکھ کررسالت مآبeکی آنکھیں آنسو¶ں سے لبریزہوگئیں۔یہ خوشی کاموقعہ تھا اورخوشی کے موقعہ پر رسول اللہe کی آنکھوں میں آنسو....!صحابہyیہ منظر دیکھ کر بے قرارہوگئے۔ پوچھاگیا یارسول اللہe! اس خوشی کے موقعہ پر آپ کی آنکھوں سے آنسو کیوں....؟زبانِ نبوت واہوئی‘ فرمایا ساتھیو!یہ سونے کا کڑا میری بیٹی زینبr کاہے۔ یاد رہے کہ غزوہ بدر سے پہلے حضرت زینبrکے خاوندعمروبن ابی العاص مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ وہ غزوہ بدر میں جب گرفتار ہوئے تورہائی کے لئے سونے کاکڑا فدیہ میں دینا پڑا۔ اس کے بعد زبان نبوت سے جوالفاظ اداہوئے‘ وہ تمام دنیا کے خاوندوں کے لئے رہتی دنیاتک مثال ہیں۔ فرمایا:ساتھیو! یہ کڑا میری بیوی خدیجہ کا ہے۔جب میں نے یہ کڑا دیکھا تومجھے اپنی بیوی خدیجہکی وفائیں اور قربانیاں یاد آ گئیں۔ اگرتم سب کی اجازت ہوتومیں یہ کڑا اپنی بیٹی کوواپس کردوں۔“صحابہ کرامy رسول اللہ eکی بے قراری دیکھ کر تڑپ اٹھے۔وہ تو اپنی زندگیاں اپنے مال اور اپنی اولاد سب کچھ آپپرقربان کرنے کاعزم کئے ہوئے تھے۔سب بیک زبان بولے یارسو ل اللہ” ہمیں بھلاکیااعتراض ہوسکتاہے۔“ یہ ہے وفاشعار اوراطاعت گزار بیوی کی وفا¶ں کااعتراف۔یہاں سمجھنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ جب خاوند اوربیوی ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری ‘ایک دوسرے کی خدمت واطاعت اورایک دوسرے کااحترام کررہے ہوتے ہیں تووہ درحقیقت اللہ اوراس کے رسولeکی اطاعت کررہے ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ خاوند بیوی کی باہم حقوق کی پاسداری‘ اطاعت وخدمت گزاری اورباہم رواداری قرآن اور صاحب قرآن کاحکم ہے۔ پس معلوم ہواکہ خاونداوربیوی کی باہم محبت عبادت ہے۔اسی طرح خاوند اوربیوی کاایک دوسرے کی غلطیوں سے فرووگذاشت کرنا بھی عبادت اور ثواب ہے۔

  3. #3
    Aspirant's Avatar
    Aspirant is offline Senior Member
    Last Online
    30th September 2017 @ 01:14 PM
    Join Date
    30 Apr 2007
    Gender
    Male
    Posts
    4,854
    Threads
    594
    Credits
    1,049
    Thanked
    785

    Default

    nice info majaal hain kah koi in bato par zara be khial kary shukria janaab
    [CENTER][URL="http://www.itdunya.com/t355664/"][SIZE="5"]~ایک قافلہ~[/SIZE][/URL]
    [SIGPIC][/SIGPIC][/CENTER]

  4. #4
    PrInCeSsSsSs's Avatar
    PrInCeSsSsSs is offline Senior Member+
    Last Online
    22nd April 2015 @ 04:06 PM
    Join Date
    03 Aug 2012
    Location
    SssSshhh...
    Gender
    Female
    Posts
    1,623
    Threads
    110
    Credits
    0
    Thanked
    294

    Default

    .....
    Allah bless our nation.
    ameen

  5. #5
    Join Date
    04 Apr 2012
    Location
    karachi
    Gender
    Male
    Posts
    1,988
    Threads
    239
    Credits
    1,442
    Thanked
    140

    Default

    ا نھی با تو ں کی و جہ سے ہی تو عذ ا ب آ تے ہیں

  6. #6
    arifcda's Avatar
    arifcda is offline Senior Member+
    Last Online
    14th June 2021 @ 12:05 AM
    Join Date
    17 Mar 2012
    Location
    RAWALPINDI
    Age
    42
    Gender
    Male
    Posts
    471
    Threads
    60
    Credits
    1,338
    Thanked
    21

    Default

    Thanks nice info

  7. #7
    Join Date
    30 Oct 2013
    Location
    Attock,punjab
    Gender
    Male
    Posts
    107
    Threads
    8
    Credits
    940
    Thanked
    5

    Exclamation lmha fikare

    fiker ki baat hy

  8. #8
    nissa's Avatar
    nissa is offline Senior Member
    Last Online
    23rd April 2019 @ 10:44 AM
    Join Date
    21 Dec 2011
    Gender
    Female
    Posts
    1,424
    Threads
    54
    Credits
    3,044
    Thanked
    30

    Default

    JAZAK ALLAH
    [CENTER][SIGPIC][/SIGPIC][/CENTER]

  9. #9
    Join Date
    12 Feb 2016
    Location
    united states
    Age
    34
    Gender
    Male
    Posts
    19
    Threads
    6
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Default

    mujhe ap ki baatain bohat pasand aye.
    Think you

  10. #10
    abdul6616's Avatar
    abdul6616 is offline Advance Member
    Last Online
    13th November 2023 @ 03:59 PM
    Join Date
    13 May 2014
    Location
    Karachi
    Gender
    Male
    Posts
    1,394
    Threads
    291
    Credits
    6,040
    Thanked
    103

    Default

    nice

  11. #11
    Join Date
    29 Jul 2018
    Age
    35
    Gender
    Male
    Posts
    52
    Threads
    2
    Credits
    939
    Thanked
    0

    Default

    یہ آگاہی ہمارے ساتھ شئیر کرنے کا بہت شکریہ

  12. #12
    Rizwan ziab is offline Member
    Last Online
    5th April 2020 @ 08:35 PM
    Join Date
    04 Apr 2020
    Age
    27
    Gender
    Male
    Posts
    55
    Threads
    4
    Credits
    473
    Thanked
    0

    Default

    waa

Page 1 of 2 12 LastLast

Similar Threads

  1. Replies: 11
    Last Post: 4th April 2020, 07:42 PM
  2. Replies: 1
    Last Post: 29th December 2013, 08:20 PM
  3. Replies: 10
    Last Post: 17th August 2012, 12:30 PM
  4. Replies: 10
    Last Post: 26th December 2010, 06:37 AM
  5. حرف تازہ نئی خوشبو میں لکھاچاہتا ھے
    By fmchaudhary in forum Urdu Adab & Shayeri
    Replies: 11
    Last Post: 14th January 2010, 01:08 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •