محاورات اورضرب الامثال اگرچہ آسمانی صحیفوں کاحصہ نہیں تاہم یہ نسل انسانی کے صدیوں کے تجربات کانچوڑ ضرورہیں ‘اس لئے محاورات اور ضرب الامثال کی سچائی کوجھٹلانا آسان نہیں ہے۔ انہی محاورات میں سے ایک محاورہ ہے ”ہر چمکتی چیزسونا نہیں ہوتی“یعنی بظاہر روشن اورچمکدارنظرآنے والی ہرچیزسونا نہیں ہوتی “ اس لئے کہ اکثراوقات بظاہرروشن اور چمکدارنظر آنے والی چیزوں کی حقیقت اوران کا پس منظر وپیش منظرکچھ اورہوتاہے۔جیساکہ موجودہ حکومت کی روشن خیالی مہم ہے۔ ممکن ہے روشن خیالی کی یہ مہم کچھ لوگوں کوبھلی لگ رہی ہوگی اور آنکھوں کو اس نے خیرہ کررکھاہوگا اورممکن ہے کچھ لوگ اس کی ظاہری چمک دمک پرنثاربھی ہورہے ہوں گے مگر درحقیقت نتائج کے اعتبار سے”روشن خیالی کی یہ مہم بڑی تباہ کن اورخوفناک ہے۔ موجودہ حکومت کی”عورتوں کے لئے آزادی اورانصاف کی فوری فراہمی“ بھی اس روشن خیالی کی مہم کاایک اہم حصہ ہے۔عورتوں کی آزادی اوران کے لئے انصاف کی فوری فراہمی کے خلاف کوئی ذی شعور نہیں ہوسکتابشرطیکہ یہ اسلام کی حدودمیں رہتے ہوئے ہو۔دیکھنایہ ہے کہ جنرل(ر)پرویزمشرف کی طرف سے عورتوں کی آزادی اور انصاف کی فوری فراہمی کی مہم کیاہے....؟؟ یہ مہم درحقیقت پاکستان کے مسلم معاشرہ کے مشترکہ خاندانی نظام کوتباہ کرنے کی خوفناک سازش ہے تاکہ مغرب کی طرح یہاں بھی مادرپدر آزاد معاشرہ قائم ہوجائے اورعورت چراغ خانہ کی بجائے شمع محفل اوربازار کی جنس بن جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہمارے ملک میں محبت کی شادیوں کے حق میں فضاہموار کی جارہی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام تباہ کرنے کے لئے طلاق کاعمل آسان ترکردیاگیا: انسانی اورخاندانی معاملات سے تعلق رکھنے والے قوانین اتنے پیچیدہ ہیں کہ ان میں فوری انصاف کاحصول مشکل ترین نہیں تو مشکل ترضرورہے جبکہ طلاق کے معاملات کوروشن خیالی کے دورمیں انتہائی آسان کردیاگیاہے۔عائلی قوانین میں ان تبدیلیوں کوعورتوں کی آزادی اورفوری انصاف قرار دیا گیا ہے۔چنانچہ آزادی اورفوری انصاف کی مہم کا نتیجہ ہے کہ اس وقت صرف لاہور شہرمیں ہرروز30 خواتین ازدواجی زندگی کے بندھن سے آزاد ہورہی ہیں۔ اسلام نے طلاق کوجائز کاموں میں سے سب سے ناپسندیدہ قرار دیاتھا لیکن اب ہمارے ہاں یہ ناپسندیدہ کام آسان ترین کام بنتاجارہاہے اوراسے حق سمجھ کر استعمال کیاجارہاہے۔ 1964ءکے عائلی قوانین میں یہ تھاکہ جب عورت کی طرف سے خلع کادعویٰ دائر ہوتاتو عورت کوخلع کی وجوہات شہادت کے ذریعے ثابت کرنی پڑتی تھیں۔عدالتیں گواہوں کے بیانات قلمبند کرتیں‘گواہوں پرجرح ہوتی اور پھروکلاءکی بحث کے بعد عدالتیں فیصلہ سناتیں۔ اس طرح طلاق کے لینے اوردینے پرکچھ وقت ضرور لگتاتھا مگریہی وقت اکثر باہمی رضامندی کا سبب بن جاتاتھا۔ مناسب وقت ملنے‘خاندان‘ پڑوس یااہل علاقہ کی کوششوں سے فریقین میں صلح ہوجاتی۔اس طرح ایک خاندان ٹوٹنے اور بچے در بدر ہونے سے بچ جاتے۔پھردنیا میں گلوبلائزیشن کی ہواچلی اورصلیب برداربش اسلامی دنیا کوفتح کرنے کے لئے کمربستہ ہوا۔اس مقصدکی خاطر ایک طرف تو لشکر کشی کے منصوبے بنے اور دوسری طرف اسلامی معاشروں کوشکست وریخت سے دوچار کرنے کے پروگرام بنائے گئے ۔پاکستان میں اس مذموم مہم کے تحت فیملی کورٹس ایکٹ میںاکتوبر 2005ءدفعہ (4)Provison 10کے تحت تبدیلی لائی گئی ۔اس تبدیلی کے تحت اب خلع کے لئے کوئی وجہ بتانے کی ضرورت نہیں۔بس یہ ہے کہ خاوندایک دفعہ عدالت میں حاضرہوجائے اور جواب دعویٰ دائرکردے توعدالت مابین فریقین صلح کروانے کی کوشش کرے گی ۔اگرصلح نہ ہوسکے توخلع کی ڈگری جاری کردی جائے گی۔ اگرمعاملہ یہاں تک ہی رہتاتوشاید کسی حدتک قابل قبول تھا۔ موجودہ تبدیلی کے بعدخلع کا اب ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ عورت پورے پاکستان میں کہیں بھی اور کسی بھی ایسے شہرکے فیملی کورٹس میں خلع کادعویٰ دائر کرسکتی ہے جہاں اس نے کسی وقت میں عارضی رہائش رکھی ہو ۔عارضی رہائش کی تعریف میں ایک دن بھی شامل ہے۔ جب ایسے شہر میں جا کر عورت خلع کادعویٰ دائرکرتی ہے توخاوند کو بعض اوقات معلوم بھی نہیں ہوپاتا اور عورت کے حق میں فیصلہ ہوجاتاہے۔ عائلی قوانین میں تبدیلی کی یہ تباہ کن آواز انسانی حقوق کی بعض نام نہاد تنظیموں نے اٹھائی اوراسلام آباد میں براجمان حکمرانوں نے اس مہم کی پوری سرپرستی کی ۔چنانچہ پاکستان لاءکمیشن کواوپر سے تبدیلی کے لئے ہدایات جاری کی گئیں۔ جسٹس افتخار محمدچوہدری نے فیملی کورٹس ایکٹ میں کی جانے والی اس تبدیلی پر ناپسندیدگی کااظہار کیااوراس تبدیلی کوواپس لینے کی ہدایات بھی جاری کیںتاہم انہیں کوئی کامیابی نہ ہوسکی اوران کی مخالفت کے باوجودفیملی کورٹس کے سیکشن 10میں تبدیلی کردی گئی۔ پرویز مشرف حکومت کی طرف سے کی جانے والی ترامیم کانتیجہ ہے کہ اب عدالتیں خلع اورطلاق کی ڈگریاں ریوڑیوں کی طرح بانٹ رہی ہیں۔ کہتے ہیں کہ حرکت میں برکت ہوتی ہے‘ سوحکومت نے عائلی قوانین میں اکتوبر 2002ءمیں جو تبدیلی کی ‘اس حرکت سے یہ”برکت‘ ہوئی کہ گذشتہ پانچ سالوں میں50ہزار سے زائد خواتین نے خلع کے لئے عدالتوں سے رجوع کیا‘ صرف لاہورشہرمیں گذشتہ سال12,000 کے قریب خلع اورطلاق کے کیس دائر ہوئے۔ طلاق وخلع کے نقصانات ومضمرات: جب خاوند بیوی کے درمیان کشیدگی انتہا کو پہنچ جائے تواکثر اوقات اس کاانجام طلاق ہوتی ہے۔ ایسی صورت میںاسلام نے طلاق کافلسفہ یہ بیان کیاہے کہ مزیدکشیدگی ‘ تنازع اور جھگڑا سے بچاجاسکے اورخاوندبیوی بطریق احسن ایک دوسرے کی زندگی سے نکل جائیںمگرہمارے معاشرے میں اس کے بالکل الٹ ہوتاہے۔طلاق آگ کاایک عذاب بن جاتی ہے۔ اس آگ کی لپیٹ میں دونوں خاندان یا لڑکی کاخاندان یاپھرمطلقہ خاتون بری طرح جھلستے اورجلتے ہیں۔کئی قسم کی گھریلو اور معاشی پریشانیاں جنم لیتی ہیں ۔اکثراوقات طلاق خودکشی اور قتل کا سبب بن جاتی ہے۔جن والدین کے درمیان طلاق واقع ہوجاتی ہے‘ ان کے بچے معمول کی زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتے‘وہ عدم توازن اور عدم تحفظ کاشکار ہوجاتے ہیں۔ ان کی تعلیمی اورمعاشرتی کارکردگی متاثرہوتی ہے۔ ان میں اعتماد اور خودداری کافقدان رہتاہے۔ طلاق یافتہ والدین کے بچے مفید اورکارآمد شہری نہیں بن سکتے۔ نفسیاتی اور دماغی امراض کے ہسپتالوں میں کئے گئے سروے کے مطابق دماغی اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہونے والے مریضوں میں بڑی تعداد ایسے افراد کی ہوتی ہے جوطلاق کی وجہ سے بچپن میں والدین کی شفقت سے محروم ہوجاتے ہیں۔یہ محرومی بچوں میں احساس محرومی پیدا کرتی ہے اور یہی احساس محرومی بچوں کو جرائم کی طرف راغب کرنے کاسبب بنتی ہے۔ طلاق کے اسباب وعوامل: اب سوال یہ ہے کہ طلاق کیوں ہوتی ہے؟ ہنستا بستاگھر کیوں اجڑجاتاہے؟ طلاق کے اسباب وعوامل اورمحرکات کیاہیں....؟اورکون سا طریقہ ہے جس سے طلاق کی شرح کوکم کیاجاسکتا ہے....؟ ہمارے معاشرے میں طلاق کی عمومی وجوہات یہ ہیں۔ مثلاً جہیز‘وٹہ سٹہ کی شادی‘ شوہراوربیوی میں سے کسی ایک کااپنی حدود سے تجاوز کرنایااپنے حقوق کی ادائیگی سے پہلوتہی کرنا‘بے جاغصہ اور بے جابحث وتکرار‘کسی تیسر ے شخص کاخاوند اور بیوی کی زندگی میں نقب لگانا۔بعض دفعہ طلاق کا سبب لڑکی یالڑکے کے والدین بن جاتے ہیں۔ لڑکی کے والدین غلطی پراپنی بیٹی کی سرزنش کرنے کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں‘ یہی صورت کبھی لڑکے کے والدین کی طرف سے پیش آتی ہے۔ وہ اپنی ذاتی انااورمفادات کے لئے لڑکے کوبھڑکاتے رہتے ہیں۔بعض اوقات لڑکے اورلڑکی کا سٹیٹس بھی طلاق کی وجہ بن جاتاہے۔ مثلاً اگر لڑکا امیر خاندان کاہو اور لڑکی کاتعلق غریب خاندان سے ہو توایسی لڑکی کاجینا محال کردیاجاتاہے۔ اسی طرح امیراورخودمختارلڑکی کاغریب لڑکے سے نباہ مشکل ہوجاتاہے۔ وہ جہیز‘دولت اوراعلیٰ تعلیم کے زعم میں خاوند کوگھٹیا اورکمترسمجھتی ہے۔ملازمت پیشہ خواتین کی ملازمت بھی طلاق کاسبب بنتی ہے۔ پاکستان میں موجودترقی پسندخواتین کی روشن خیال این جی اوز کی خواتین کے بقول طلاق کی بڑی وجہ جہالت‘خواتین پربے جاپابندیاں‘ شعور کی کمی اورمرد کی دوسری شادی ہے۔یہ خواتین اس بات کااظہار کرتی ہیں کہ پاکستان میں طلاق کی شرح میں خوفناک حدتک اضافہ ہورہاہے۔ ان خواتین کے نردیک اس صورتحال کے ازالہ اور تدارک کی ایک ہی صورت ہے یعنی جہالت کا خاتمہ اور دوسری شادی کی حوصلہ شکنی۔ جہاں تک جہالت کے خاتمہ کاتعلق ہے‘ اس میں کسی کوکوئی اختلاف نہیں۔ واقعی جہالت کاخاتمہ ہوناچاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ روشن خیال خواتین کے نزدیک جہالت کے خاتمہ سے کیامرادہے....؟ ان کے نزدیک جہالت کے خاتمہ کامطلب ہے .... ”پردہ اورحدود وقیودکاخاتمہ ‘لڑکیوں کے گھروں سے بھاگنے اورکورٹ میرج کرنے کی حوصلہ افزائی۔“جہاں تک دوسری شادی کاتعلق ہے‘ اس میں بھی ترقی پسند خواتین کادہرا معیار ہے۔ مثلاً پاکستان میں بیگم رعنالیاقت علی خان عورتوں کی آزادی کی پہلی علمبردار خاتون تھیں جنہوں نے اپواکی بنیاد رکھی ۔اس کے بعدوہ اپواکے پلیٹ فارم سے سرکاری چھتری تلے خواتین کی نام نہاد آزادی کے لئے کوششیں کرتی رہیں۔ بیگم رعنا کے نزدیک مرد کا دوسرا نکاح کرنا بہت بڑاجرم تھا‘ وہ مرد کی دوسری شادی کو خواتین کے حق پرڈاکہ سمجھتی تھیں لیکن ان کا اپنا عمل‘فعل اور کردار اس کے برعکس تھا۔ وہ خود لیاقت علی خان کی دوسری بیوی تھیں۔اسی طرح بیگم نصرت بھٹواپنے وقت میں خواتین کی آزادی کی علمبردار اور مرد کی دوسری شادی کے خلاف آواز اٹھاتی رہیں جبکہ وہ خود ذوالفقار علی بھٹو کی دوسری بیوی تھیں۔ طلاق کی ایک وجہ طبقاتی تقسیم کے مسائل ہیں‘سماجی اور معاشی اعتبار سے پاکستانی عوام کو تین طبقوں میں تقسیم کیاجاتا ہے‘ امیرترین طبقہ‘ درمیانہ اورغریب وپسماندہ طبقہ۔اعلیٰ طبقہ کے مرد ہوں یا خواتین ان میں تعلیم عام ہے۔درمیانہ طبقہ میں تعلیم کارجحان توہوتاہے مگر وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے اس طبقہ کے لوگ عموماً اپنے بچوں کواعلیٰ تعلیم دلانے سے محروم رہتے ہیں ۔ تیسرے طبقہ میں تعلیم کارجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر ان کے بچے تعلیم حاصل کربھی لیں تووہ بس برائے نام ہوتی ہے۔ یہ خیال عام ہے کہ پسماندہ طبقہ میں جہالت سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے ان تین طبقات میں طلاق کی شرح کیاہے....؟ ”عورت فا¶نڈیشن“ روشن خیال خواتین کی NGO ہے۔ یہ فا¶نڈیشن خواتین کے حقوق کی پاسداری اورجہالت کے خاتمہ کے لئے کام کررہی ہے۔ اس فا¶نڈیشن کی ایک ذمہ دار جوکہ عرصہ 13سال سے فا¶نڈیشن سے وابستہ ہیں اور فا¶نڈیشن کی طرف سے نکاح‘طلاق وغیرہ کے معاملات ڈیل کرتی ہیں‘ان کا کہناہے