حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم سے پہلے لوگوں میں ایک شخص تھا، اسے زخم لاحق ہوا تو گھبرا گیا۔ اس نے (تنگ آکر) خود کشی کرلی۔ اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا، میرے بندے نے اپنی جان کے خاتمے کے لیے مجھ سے آگے نکلنے کی کوشش کی۔ لہٰذا میں نے اس پر جنت حرام کردی”۔
(بخاری)
فائدہ:۔
یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں ہر طرح کی نعمت انسان کی خدمت اور فائدے کے لیے ہے۔ اللہ تعالٰی کی مقرر کردہ حدود میں رہ کر ان سب سے فائدہ اٹھانا انسان کا حق ہے۔ لیکن کسی بھی چیز کے غلط استعمال کی اسے اجازت نہیں۔ کیونکہ انسان خود مالک نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف امین ہے۔ حتٰی کہ وہ اپنی اس جان کا بھی مالک نہیں ہے۔ اس لیے غلط جگہ یا غلط طریقے سے بھی اپنی زندگی، وقت اور صلاحیت خرچ نہیں کرسکتا۔ اگر وہ اپنی یہ زندگی خود اپنے ہاتھوں ختم کرنا چاہے تو جان کے خالق و مالک نے اسے اس کی اجازت نہیں دی ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ: ”اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، یقین مانو کہ اللہ تمھارے اوپر نہایت مہربان ہے”۔ (النساء۔29)۔
انسان سے سرزد ہونے والے جرائم میں سب سے سنگین اور گھناؤنا جرم خود کشی ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو بھی اختلاف نہیں۔ حتٰی کہ جانور بھی بہ زبان حال اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اپنی جان کی حفاظت اور اس کی بقا کی کوشش کرتے ہیں۔ جو کہ فطرت کا بنیادی درس ہے۔ اسلام جو دین فطرت ہے اس نے اس کے اردگرد وعید کے مضبوط حصار قائم کردیے اور اس برائی کو جنم دینے والے عقائد باطلہ کی بیخ کنی کی۔ انسان کو ہر حال میں صبر و استقلال کا درس دیا اور اس حقیقت کو ذہن نشین کرایا کہ اس دنیا میں کسی شے کو ثبات نہیں۔ ہر چیز تغیر کی زد میں ہے۔ یہاں کی صحت وتندرستی، عیش و آرام، دولت و ثروت، جاہ و جلال اور یہاں کے مصائب و تکالیف، غربت و افلاس سب بدلتے رہتے ہیں اور ہر پریشانی کے ساتھ خوش حالی آتی ہے اور بالآخر اس زندگی کے بعد ایک ہمیشہ کی زندگی ہے وہاں ہر شے کو دوام و ثبات حاصل ہے۔ انسان زندگی کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے اور کبھی اس کا سفینہ حیات مصیبتوں و تکلیفوں کے بھنور میں پھنس جاتا ہے اور وہ سمجھ لیتا ہے کہ ان مصائب کو طوفان سے اب چھٹکارا ممکن نہیں اور ہمارا ازلی دشمن شیطان اس کو مایوسی کے دام میں گرفتار کرکے اس کے دل میں یہ بات ڈال دیتا ہے کہ خودکشی کے ساحل کے علاوہ اور کوئی ساحل نہیں اور یہی دوا ہر مرض کا علاج ہے جبکہ یہ نادان نہیں جانتا کہ نظر آنے والا کنارہ حقیقت میں مصائب و آلام کا انتہائی گہرا سمندر ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
اس لیے اللہ تعالٰی نے ایک جگہ اس طرح فرمایا: ”اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو”۔ (البقرہ۔195)۔ خود کشی کرنے والے کے ساتھ عام طور پر رحم دلی اور ترس کا معاملہ کیا جاتا ہے اور اکثر اوقات مخالف اور دشمن بھی اس موقع پر ترس کھاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کس قدر شفیق اور سراپا رحمت تھی کہ ہمیشہ اپنے دشمن کے لیے تھی دعائے ہدایت کی اور جب تک اللہ تعالٰی کی طرف سے واضح حکم نہیں آگیا کسی منافق کی نماز جنازہ پڑھانے سے بھی انکار نہیں فرمایا۔ مگر رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں تو اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھاؤں گا۔ (بحوالہ سنن النسائی)۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ: ”جس کسی نے پہاڑ سے گر کر خودکشی کرلی وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسی طرح گرتا رہے گا۔ جس کسی نے زہر پی کر خودکشی کرلی۔ زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا اور جہنم کی آگ وہ ہمیشہ ہمیشہ پیتا رہے گا اور جس نے دھار والی چیز کو مارکر خودکشی کرلی تو وہ دھار دار آلہ اس کے ہاتھ میں ہوگا جس سے وہ جہنم کی آگ میں مسلسل اپنا پیٹ چاک کرتا رہے گا۔ (بحوالہ بخاری)۔
اللہ تعالٰی ہر مسلمان کو اس حرام موت سے محفوظ رکھ اور صراط مستقیم کی توفیق عنایت فرماتا رہے۔ آمین یا رب
Bookmarks