چکن گنیا بڑی تیزی سے وبائی صورت اختیار کرتا جارہا ہے اور کراچی میں سینکڑوں افراد اب تک اس سے متاثر ہوچکے ہیں لیکن ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ چند آسان اور کم خرچ گھریلو تدابیر اختیار کرتے ہوئے اس سے بچا جاسکتا ہے۔



اگرچہ چکن گنیا بخار اسی مچھر کے کاٹے سے ہوتا ہے جو ڈینگی کا باعث بنتا ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ چکن گنیا کوئی جان لیوا بیماری نہیں اور تقریباً سات دن میں قدرتی طور پر مکمل ختم ہوجاتی ہے۔ اس کی علامات مچھر کے کاٹنے کے 4 سے 7 دنوں میں ظاہر ہوتی ہیں اور اس دوران متاثرہ فرد میں تیز بخار، جوڑوں کے درد، جوڑوں کی سوجن، جلد پر دھبے، پٹھوں میں درد، متلی اور شدید تھکاوٹ جیسی کیفیات ظاہر ہوسکتی ہیں۔ اگر کسی شخص میں یہ علامات موجود ہوں تو

اسے چاہئے کہ روزانہ زیادہ سے زیادہ مقدار میں پانی استعمال کرے اور کوشش کرے کہ سوپ یا مشروبات کی شکل میں اپنی غذائی ضروریات پوری کرے۔
چکن گنیا کی صورت میں آرام کرنا زیادہ بہتر رہتا ہے کیونکہ اس سے جسم کا قدرتی دفاعی نظام (امیون سسٹم) بہتر کام کرتا ہے جس سے چکن گنیا کی شدت قابو میں رہتی ہے۔
واضح رہے کہ اب تک چکن گنیا کی کوئی دوا یا ویکسین دستیاب نہیں اس لیے اگر کوئی مہنگی دوا یہ کہہ کر فروخت کی جارہی ہو کہ اس سے چکن گنیا کا مکمل علاج ہوجاتا ہے تو ایسے کسی دعوے کا یقین نہ کیجیے۔ ڈسپرین، پیناڈول، پیراسیٹامول اور درد ختم کرنے والی عام اور کم خرچ دوائیں چکن گنیا کے دوران بخار کی شدت اور جوڑوں یا پٹھوں کی تکلیف کم کرنے میں زیادہ مناسب رہتی ہیں لہذا یہی استعمال کرنا بہتر بھی رہتا ہے۔
اس کے علاوہ، چکن گنیا سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرکے آپ نہ صرف اس بیماری سے بلکہ ملیریا اور ڈینگی سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔
گھر میں صفائی ستھرائی کا خصوصی خیال رکھیے اور اگر کیاریوں یا گملوں میں پودے لگا رکھے ہوں تو ان پر باقاعدگی سے کیڑے مار دواؤں کا (خاص کر مچھر مار دواؤں کا) اسپرے کرتے رہیے۔
گھر میں اور گھر کے آس پاس پانی کھڑا ہونے نہ دیجئے۔ واضح رہے کہ گندے اور بدبودار پانی کے علاوہ اگر صاف پانی بھی زیادہ دیر تک کسی کھلی جگہ پر کھڑا رہے تو اس میں بھی ڈینگی اور چکن گنیا پھیلانے والے مچھر (یعنی ایڈیز مچھر) پیدا ہوسکتے ہیں۔
چونکہ ایڈیز مچھر صاف پانی میں نشوونما پاتا ہے، اس لئے گھر میں رکھی گئی پانی کی ٹنکیوں اور پانی رکھنے والے برتنوں کو ڈھانک کر رکھیے اور اگر ممکن ہو تو انہیں صبح و شام صاف بھی کرتے رہیے۔
بعض گھروں میں چھتوں پر یا پارکنگ میں پرانے ٹائر اور دوسرا سامان رکھ دیا جاتا ہے جس کے اندرونی حصوں میں جمع ہوجانے والا پانی انہیں ایڈیز مچھر کی بہترین پناہ گاہ میں تبدیل کردیتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ٹارچ لے کر ان جگہوں کا بھی وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہیے اور ان میں موجود پانی خشک کرتے رہیے۔
یہی معاملہ مسہریوں، چارپائیوں اور گھروں میں بنے ہوئے اسٹور رومز کا بھی ہے جہاں کاٹھ کباڑ اور پرانا سامان رکھا رہتا ہے۔ گھر میں ایسے مقامات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جو زیادہ وقت تاریکی اور نمی میں رہتے ہوں کیونکہ یہاں مچھروں کے ساتھ ساتھ لال بیگ اور دوسرے کیڑے مکوڑے بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ وقفے وقفے سے ان جگہوں سے سامان نکال کر اچھی طرح صفائی کی جائے اور کیڑے مار دواؤں کا اسپرے کردیا جائے۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ ان مقامات پر سیلن پیدا نہ ہونے پائے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ فلیٹوں کی گیلریوں میں گملے اور چڑیوں کے لئے پانی کے پیالے رکھ دیئے جاتے ہیں جن میں پانی جمع رہتا ہے۔ بہتر ہے کہ پیالوں میں روزانہ پانی تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ گملوں پر کیڑے مار دوائیں پابندی سے چھڑکی جائیں۔
پانی ابال کر یا فلٹر کرکے استعمال کرنا ہر موسم میں اچھی صحت کے لئے ضروری ہے۔
اگر ممکن ہو تو گلی محلے کے بچوں کو ذمہ داری دیجئے کہ وہ کھیل کے دوران آس پاس کے علاقے میں (خاص طور پر تنگ گلیوں میں) کھڑے ہوئے پانی اور گندگی کے بارے میں اپنے گھر کے بڑوں کو فوری طور پر بتائیں تاکہ ان جگہوں کو جلد از جلد صاف کیا جائے اور وہاں مچھر، مکھیاں وغیرہ پیدا نہ ہونے پائیں۔ چند سال پہلے جب ڈینگی کے خلاف مہم کے دوران کراچی کے بعض علاقوں میں بچوں کو اس انداز سے شریک کیا گیا تو زبردست نتائج سامنے آئے۔
کیڑے مکوڑوں کو بھگانے والی معیاری دوائیں جسم کے کھلے حصوں پر لگائیے لیکن اگر کسی دوا سے الرجی کا خطرہ ہو تو ڈاکٹر کے مشورے سے مختلف دوا استعمال کیجئے۔
کوشش کیجئے کہ لمبا، ڈھیلا ڈھالا اور ہلکے رنگ والا لباس پہنیں کیونکہ ایسا لباس آپ کے پورے جسم کو ڈھک کر رکھتا ہے اور کیڑے مکوڑوں سے بچانے میں بھی بہت مددگار رہتا ہے۔
مچھروں سے بچاؤ کے لئے مچھر بھگانے والا کوائل اور میٹ وغیرہ استعمال کیجئے اور اگر علاقے میں بہت زیادہ مچھر ہوں تو اضافی طور پر مچھر دانی لگا کر سوئیے۔
جہاں تک چکن گنیا اور ڈینگی کی وجہ بننے والے ایڈیز مچھر کا تعلق ہے، تو یہ صبح سویرے اور شام کے وقت زیادہ سرگرم ہوتا ہے اور زیادہ تر انہی اوقات میں کاٹتا بھی ہے۔ یعنی ان مواقع پر خصوصی احتیاط کی ضرورت ہے تاہم دن کے دوسرے اوقات میں بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیجئے۔
ملاحظہ کیجئے کہ بظاہر انتہائی معمولی دکھائی دینے والے یہ اقدامات وہ ہیں جن سے تقریباً ہم سب واقف ہیں لیکن جانتے بوجھتے ہوئے بھی ان پر عمل نہیں کرتے اور کبھی ملیریا تو کبھی چکن گنیا کا شکار بن جاتے ہیں۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ ان تدابیر پر عمل کرتے ہیں یا پھر الٹا سیدھا علاج کروانے کے چکر میں پڑ کر اپنا وقت، پیسہ اور صحت برباد کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔