*دَردِ کی تحریر*
بابا بابا!
تِین دِن رہ گئے ہیں قربانی والی عید میں۔ ہمیں بھی گوشت ملے گا نا؟
بابا،
ہاں ہاں کیوں نہی بِالکُل ملے گا۔۔
لیکن بابا پچھلی عید پر تو کسی نے بھی ہمیں گوشت نہیں دیا تھا،
اب تو پورا سال ہو گیا ہے گوشت دیکھے ہوئے بھی،
نہیں شازیہ،
اللہ نے ہمیں بھوکا تو نہیں رکھا،
میری پیاری بیٹی،
ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیۓ
حاجی صاحب قربانی کے لئے بڑا جانور لے کر آئے ہیں،
اور مولوی صاحب بھی تو بکرا لے کر آئے ہیں،
ہم غریبوں کے لیے ہی تو قربانی کا گوشت ہوتا ہے،
امیر لوگ تو سارا سال گوشت ہی کھاتے ہیں،
آج عیدالضحٰی پے مولوی صاحب بیان فرما رہے ہیں
کہ قربانی میں غریب مسکین لوگوں کو نہیں بھولنا چاہئے۔۔
ان کے بہت حقوق ہوتے ہیں۔۔
خیر شازیہ کا باپ بھی نماز ادا کر کے گھر پھنچ گیا،
گھنٹہ بھر انتظار کرنے کے بعد شازیہ بولی۔۔
بابا ابھی تک گوشت نہیں آیا،
بڑی بہن رافیہ بولی۔۔ چپ ہو جاٶ شازی بابا کو تنگ نہ کرو۔
وہ چپ چاپ دونوں کی باتیں سنتا رہا اور نظرانداز کرتا رہا۔۔
کافی دیر کے بعد بھی جب کہیں سے گوشت نہیں آیا تو شازیہ کی ماں بولی۔
سنیۓ میں نے تو پیاز ٹماٹر بھی کاٹ دیۓ ہیں۔ لیکن کہیں سے بھی گوشت نہیں آیا،
کہیں بھول تو نہیں گۓ ہماری طرف گوشت بجھوانا۔
آپ خود جا کر مانگ لائیں،
شازیہ کی ماں تمہیں تو پتہ ھے آج تک ہم نےکبھی کسی سے مانگانہیں ،
اللہ کوئ نہ کوئ سبب پیدا کرے گا۔۔
دوپہر گزرنے کے بعد شازیہ کے اسرار پر پہلے حاجی صاحب کے گھر گئے،
اور بولے حاجی صاحب۔ میں آپ کا پڑوسی ہوں کیا قربانی کا گوشت مل سکتا ہے؟
یہ سننا تھا کہ حاجی صاحب کا رنگ لال پیلا ہونے لگا،
اور حقارت سے بولے پتہ نہیں کہاں کہاں سے آ جاتے ہیں گوشت مانگنے،
تڑاخ سے دروازہ بند کر دیا ۔۔
توہین کے احساس سے اسکی آنکھوں میں آنسو گۓ۔۔
اور بھوجل قدموں سے چل پڑا راستے میں مولوی صاحب کے گھر کی طرف قدم اٹھے
اور وہاں بھی وہی دست سوال۔
مولوی صاحب نے گوشت کا سن کر عجیب سی نظروں سے دیکھا اور چلے گۓ۔
تھوڑی دیر بعدد باہر آۓ تو شاپر دے کر جلدی سے اندر چلۓ گۓ۔
جیسے اس نے گوشت مانگ کر گناہ کر دیا ہو۔۔
گھر پہنچ کر دیکھا تو صرف ہڈیاں اور چربی۔۔
خاموشی سے اٹھ کرکمرے میں چلے گئے اور خاموشی سے رونے لگ گئے۔
بیوی آئ اور بولی کوئی بات نہیں۔۔ آپ غمگین نہ ہوں۔
میں چٹنی بنا لیتی ہوں۔۔
تھوڑی دیر بعد شازیہ کمرے میں آئ۔
اور بولی بابا،
ہمیں گوشت نہںں کھانا ۔ میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے ویسے بھی،
یہ سننا تھا کہ آنکھوں سے آنسو گرنے لگے اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے
لیکن رونے والے وہ اکیلے نہیں تھے۔۔
دونوں بچیاں اور بیوی بھی آنسو بہا رہے تھے۔۔
اتنے میں پڑوس والے اکرم کی آواز آئ۔۔
جو سبزی کی ریڑھی لگاتا تھا۔۔
انور بھائی،
دروازہ کھولو،
دروازہ کھولا تو اکرم نے تین چار کلو گوشت کا شاپر پکڑا دیا،
اور بولا ،
گاٶں سے چھوٹا بھائ لایا ہے۔
اتنا ہم اکیلے نہیں کھا سکتے۔
یہ تم بھی کھا لینا
خوشی اورتشکر کے احساس سے آنکھوں میں آنسو آ گۓ ۔
اور اکرم کے لیۓ دل سے دعا نکلنے لگی۔
گوشت کھا کر ابھی فارغ ھوۓ ہی تھے کہ بہت زور کا طوفان آیا ۔
بارش شروع ہو گئ۔ اسکے ساتھ ہی بجلی چلی گئی۔
دوسرے دن بھی بجلی نہی آئی۔
پتہ کیا تو معلوم ہوا ٹرانسفارمر جل گیا۔
تیسرے دن شازیہ کو لے کرباہر آئے تو دیکھا کہ،
مولوی صاحب اور حاجی صاحب بہت سا گوشت باہر پھینک رہے تھے ۔
جو بجلی نہ ہونےکی وجہ سے خراب ہو چکا تھا۔
اور اس پر کُتے جھپٹ رہے تھے۔
شازیہ بولی،
بابا۔
کیا کُتوں کے لیۓ قربانی کی تھی؟
وہ شازیہ کا چہرہ دیکھتے رہ گیے ۔
اور مولوی اور حاجی صاحب نے یہ سُن کر گردن جھکا لی۔
خدرا احساس کریں غریب اور مسکین لوگوں کا۔
یہ صِرف تحریر ھی نہیں،
اپنے آس پاس خود دار مساکین کی ضرورتوں سے ہمہ وقت آگاہ رھنے کی درخواست بھی ھے۔