بسم اللہ پڑھ کر سوٹ کیس اُٹھایا اور لاہور ریلوے سٹیشن سے کراچی کی فلائٹ پکڑ لی۔ سفر بہت خوشگوار گزرا۔ راولپنڈی پہنچتے ہی بس سے نکلا تو باقاعدہ سردی کا احساس ہوا لہٰذا سوٹ کیس سے کمبل نکال کر فوراً جرسی پہن لی۔ ٹیکسی کی تلاش میں نظریں دوڑائیں اور بالآخر کامیابی ہوئی‘ فوراً سامان ویگن میں رکھا اور مری کی جانب روانہ ہو گیا۔ ارادہ تھا کہ ہوٹل پہنچتے ہی سامان رکھوں گا اور کاغان کی سیر کو نکل جائوں گا‘ لیکن بھوک بہت لگی تھی لہٰذا پہلے ایک گلاس سیب کا جوس پیا اور ڈکار مارتے ہوئے سڑک پر آ گیا۔ پورا ملتان سموگ کی لپیٹ میں تھا‘ خاصی رومانٹک فضا تھی لیکن میں اکیلا تھا۔ قریب سے گزرتے ہوئے ایک راہگیر سے مزار قائد کا راستہ پوچھا تو انہوں نے بڑی خوشدلی سے سمجھایا کہ اگلے چوک سے سیدھے ہاتھ مڑتے ہی سامنے جھیل سیف الملوک ہے لیکن پیدل جانا مشکل ہو گا لہٰذا رکشہ وغیرہ کر لیں۔ اُن کا شکریہ ادا کیا اور قریب سے گزرتے ہوئے رکشے والے کو روک کر سکھر ایئر پورٹ جانے کے لیے کہا۔
وہاں پہنچ کر عجیب ہی نظارہ دیکھا‘ ایک میلہ سا لگا ہوا تھا اور لوگ خوشی خوشی دریائے چناب میں کشی رانی کے مزے لے رہے تھے۔ یہ دریا ہمیشہ سے مجھے پسند رہا ہے‘ اسی نسبت سے کئی لوگ مجھے 'نوخیز راوی‘ کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔ میرا بھی دل ایک ڈُبکی لگانے کو چاہا‘ لیکن مجھے سوئمنگ نہیں آتی لہٰذا نہر میں پیر ڈبو کر بیٹھ گیا۔ پانی بہت ٹھنڈا تھا لہٰذا میں کچھ دیر بعد اٹھ کھڑا ہوا۔ سمندر مجھے اداس نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ لیکن چونکہ میرے پاس وقت کم تھا لہٰذا بادل نخواستہ واپس گومل یونیورسٹی آ گیا۔ کیا خوبصورت جگہ ہے۔ اس کے بارے میں بالکل صحیح مشہور ہے کہ قصور کا فالودہ اپنی مثال آپ ہے۔ دوپہر خاصی ہو چکی تھی اور چاند کی کرنیں ہر طرف اپنی روشنی بکھیر رہی تھیں۔ ایسے میں لبوں پر بے اختیار سعادت حسن منٹو کی یہ غزل رواں ہو گئی ''دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف... اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو!‘‘
سیر و تفریح مجھے بہت پسند ہے لہٰذا جب بھی موقع ملتا ہے میں بھرپور نیند پوری کرتا ہوں۔ اِس بار میں دو چھٹیاں لے کر آیا تھا اور میرا ارادہ تھا کہ یہ پورا ہفتہ بھرپور انجوائے کروں گا۔ شام کو جسم میں کچھ تھکن سی محسوس ہوئی تو فوراً ڈاکٹر کا رخ کیا‘ اُس نے کچھ ڈراپس دیے جن سے فوری طور پر کان کا درد ٹھیک ہو گیا۔ میں نے ایسی شفا بہت کم حکیموں کے ہاتھ میں دیکھی ہے۔ اگلی منزل گوجرانوالہ تھی کیونکہ میں اطمینان سے دامن کوہ میں کچھ دیر کھل کر سانس لینا چاہتا تھا۔ بدقسمتی سے راستے میں ٹریفک جام تھی جس کی وجہ سے ہمیں شور کوٹ پہنچتے پہنچے چھ گھنٹے لگ گئے۔ میں نے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے ہوئے صاحب سے پوچھا کہ یہاں اچھا کھانا کہاں سے ملے گا؟ انہوں نے انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا ''وہ سامنے نمک منڈی چلے جائیں‘ پورے پشاور میں ایسے کھانے کہیں نہیں ملتے‘‘۔ میں نے تہہ دل سے ان کا شکریہ ادا کیا۔ کھانے کی چونکہ طلب نہیں ہو رہی تھی اس لیے سوچا کہ پہلے شہر گھوم لیا جائے‘ شیو بعد میں کروا لیں گے۔ جیکب آباد واقعی ایک دیومالائی شہر ہے۔ اگر آپ یہاں نہیں گئے تو ضرور جائیں‘ یہ وہی شہر ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔
میری عادت ہے کہ جس جگہ بھی جائوں وہاں کی کچھ یادگار چیزیں ضرور خریدتا ہوں‘ لہٰذا ایک سینما ہائوس کا رخ کیا۔ زندگی میں پہلی بار اتنی اچھی کامیڈی فلم دیکھی کہ بے اختیار میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ انڈیا کی فلمیں مجھے اس لیے بھی پسند ہیں کہ صرف ڈیڑھ گھنٹے کی ہوتی ہیں اور پچیس منٹ میں ختم ہو جاتی ہیں۔ فلم ختم ہوئی تو میں نے جماہی لی اور برتھ پر لیٹ گیا۔ چونکہ میں نے پہلے سے بکنگ کروا رکھی تھی اس لیے سفر تو آرام سے گزرا لیکن ایک کوفت بار بار ہوتی رہی کہ تانگہ اچھلتا بہت تھا۔
اگلے دن میں سورج نکلنے سے پہلے اٹھ گیا‘ سب سے پہلے ڈٹ کے ڈنر کیا اور چیئر لفٹ کی سیر کو نکل گیا۔ اُس روز میں نے بہت سی سیلفیاں بنائیں لیکن سچی بات ہے چوزے کی یخنی کا اپنا ہی مزا تھا۔ یہاں ایک جگہ میں نے میاں بیوی کی لڑائی بھی دیکھی‘ دونوںکسی گھریلو ایشو پر ایک دوسرے کو الزام دے رہے تھے۔ مجھ سے برداشت نہ ہو سکا اور میں نے نہایت پیار محبت سے اُن کی صلح کروا دی‘ دونوں بھائی ایک دوسرے کے گلے لگ گئے اور میں مسکراتا ہوا کندھے پر تولیہ ڈالے گرم حمام کی طرف چل پڑا۔ اب میرا ارادہ کوئی گیم کھیلنے کا تھا۔ کچھ دور چلنے کے بعد دیکھا کہ لڑکوں کی ایک ٹولی کرکٹ کھیل رہی ہے‘ میں نے بھی کھیل میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی جو انہوں نے مان لی۔ میری باری آئی تو وہ لوگ حیران رہ گئے‘ میں نے دس منٹ میں تین گول کر دیے۔ میچ ختم ہوا تو سب نے تالیاں بجاتے ہوئے مجھے مین آف دی میچ قرار دیا اور فرمائش کی کہ آپ کل بھی گولف کھیلنے تشریف لائیے گا۔ میرے پاس بھلا اتنا ٹائم کہاں‘ لہٰذا اُن سے معذرت کی میں سال میں صرف ایک دفعہ ہی ٹینس کھیلتا ہوں... اور آگے بڑھ گیا!
اب کچھ میٹھا کھانے کی طلب ہو رہی تھی۔ پہلے تو سوچا کہ لیگ پیس کھاتا ہوں‘ پھر سامنے چپلی کباب والے کی دکان پر نظر پڑی تو دل للچا گیا اور میں نے طے کر لیا کہ صرف اور صرف بریانی کھانی ہے۔ ایسی جگہوں کا کھانا عموماً اچھا نہیں ہوتا لیکن میں حیران ہوں کہ اُس نے اتنی شاندار کڑاہی بنائی کہ میں واقعی انگلیاں چاٹتا رہ گیا۔ اب کچھ نمکین کا موڈ ہو رہا تھا لہٰذا ٹھنڈی ٹھار آئس کریم پکڑی اور اطمینان سے برف کا گولا کھاتا ہوا چل دیا۔ کاش اس وقت میں پاس کوئی ریڈیو ہوتا تو میں فیس بک کے لیے وڈیو بنا کر ٹوئٹر پر شیئر کرتا۔ یہاں انٹرنیٹ تو تھا لیکن سگنلز کی یہ پوزیشن تھی کہ موبائل چارجنگ کے بھی دس روپے وصول کیے جا رہے تھے۔ اس کے باوجود ہر چیز کا اپنا ہی مزا تھا‘ ہر بندہ ایک دوسرے کو یار کہہ کہ مخاطب کر رہا تھا‘ جس سے اندازہ ہوا کہ واقعی رحیم یار خان‘ یاروں کا شہر ہے۔ دل تو نہیں چاہتا تھا کہ یہاں سے واپس جائوں لیکن میرا تجربہ کہتا ہے کہ آپ زیادہ دن تک سکردو میں رُک نہیں سکتے... اور پھر ویسے بھی میری چھٹیاں ختم ہو رہی تھیںاور مجھے ہر حال میں اگلے مہینے تک واپس پہنچنا تھا لہٰذا رات کو سارا سامان وغیرہ پیک کیا اور لائٹ بند کرکے آنکھیں کھول لیں۔
میں آپ دوستوں کو بھی مشورہ دوں گا کہ آپ بھی اپنی زندگی سے کچھ لمحے نکال کر باہر نکلیں‘ یورپ بہت خوبصورت ہے۔ یہاں کی قصوری میتھی کا تو جواب نہیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ مصروفیات کے باعث گھر سے نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن ایک دفعہ... صرف ایک دفعہ میری بات مان کر سفر کا ارادہ تو کریں‘ یقین کریں آپ کے خوابوں میں بھی سوئٹرزلینڈآتا رہے گا اور آپ بے اختیار کہنے پر مجبور ہو جائیں گے ''نئیں رِیساں شہر جہلم دِیاں‘‘۔ نیت کیجئے‘ ارادہ خود بخود بن جائے گا۔ اس یادگار سفرنامے کے ساتھ اب اجازت دیجئے... خوش آمدید!!