السلام علیکم! اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا رمضان میں بیوی کیساتھ ہمبستری کرنا جائز ہے یا نہیں اور اگر شوہر اپنی بیوی کو روزے کی حالت میں جماع کرنے پر مجبور کرتا ہے، جبکہ اس کی بیوی کو اس عمل کی شرعی سزا کا علم نہیں اور اسکی اسلامی تعلیمات ست بہت کم آگہی ہے اور شوہر بھی جاہل ہو تو کیا اس صورت میں عورت گنہگار ہوگی.قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں.

جواب: بنیادی مسائل زندگی کو جاننا بطور مسلمان ہمارا پہلا فریضہ ہے. کم از کم ہمیں پاکی کے مسائل سے لازماََ آگاہ ہونا چاہیے. یہی وہ فرق ہے جس سے انسا ن اور جانور میں امتیاز ہوتا ہے. بہرحال اگر میاں بیوی فرض روزے کی حالت میں رضا مندی سے جماع کر لیں تو ان پر قضاء اور کفارہ دونوں لازم آئیں گے۔ اگر خاوند زبردستی دخول کردے تو خاوند پر قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے اور بیوی پر صرف قضاء ہوگی۔ اسی طرح اگر بیوی جماع کے لیے مجبور کرے تو قضاء اور کفارہ بیوی پر ہوگا جبکہ خاوند پر صرف قضاء ہوگی۔ رمضان المبارک میں صرف راتوں میں عورت سے ہمبستری کی اجازت دی گئی ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَآئِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ عَلِمَ اللّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُواْ مَا كَتَبَ اللّهُ لَكُمْ البقرة، 2 : 187 تمہارے لئے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے، وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو، اﷲ کو معلوم ہے کہ تم اپنے حق میں خیانت کرتے تھے سو اس نے تمہارے حال پر رحم کیا اور تمہیں معاف فرما دیا، پس اب (روزوں کی راتوں میں بیشک) ان سے مباشرت کیا کرو اور جو اﷲ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے چاہا کرو۔ درج بالا آیتِ کریمہ میں بڑے واضح انداز سے ماہِ صیام میں صرف رات کے اوقات میں ہی جماع کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اگر کوئی حالتِ روزہ میں جماع کرتا ہے تو اس کے کفارہاور قضاء واجب ہو جاتا ہے۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے کفارہ کا جو طریقہ منقول ہے وہ درج ذیل ہے: عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ بْنِ الزُّبَیْرِ أَخْبَرَه أَنَّه سَمِعَ عَائِشَة رضی اﷲ عنها تَقُولُ إِنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِيَّ فَقَالَ إِنَّه احْتَرَقَ قَالَ مَا لَکَ قَالَ أَصَبْتُ أَهلِي فِي رَمَضَانَ فَأُتِيَ النَّبِيُّ بِمِکْتَلٍ یُدْعَی الْعَرَقَ فَقَالَ أَیْنَ الْمُحْتَرِقُ قَالَ أَنَا قَالَ تَصَدَّقْ بِهذَا. ’’عباد بن عبداﷲ بن زُبَیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کو فرماتے ہوئے سنا کہ ایک آدمی نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا کہ وہ جل گیا۔

آپ نے پوچھا تمہیں کیا ہوا: عرض کی کہ میں رمضان میں (دن کے وقت) اپنی بیوی سے صحبت کر بیٹھا ہوں۔ چنانچہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کھجوروں کا ایک ٹوکرا پیش کیا گیا جس کو عرق کہا جاتا ہے۔ فرمایا کہ وہ جل جانے والا کہاں ہے؟ عرض گزار ہوا کہ میں ہوں۔ فرمایا کہ اسے خیرات کر دو‘‘۔ بخاري، الصحیح، 2: 683، رقم: 1833، دار ابن کثیر الیمامة بیروت مسلم، الصحیح، 2: 783، رقم: 1112، دار احیاء التراث العربي بیروت أَنَّ أَبَا هرَیْرَة قَالَ بَیْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ النَّبِيِّ إِذْ جَائَه رَجُلٌ فَقَالَ یَا رَسُولَ اﷲِ هلَکْتُ قَالَ مَا لَکَ قَالَ وَقَعْتُ عَلَی امْرَأَتِي وَأَنَا صَائِمٌ فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ هلْ تَجِدُ رَقَبَة تُعْتِقُها؟ قَالَ لَا. قَالَ فَهلْ تَسْتَطِیعُ أَنْ تَصُومَ شَهرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ؟ قَالَ لَا. فَقَالَ فَهلْ تَجِدُ إِطْعَامَ سِتِّینَ مِسْکِینًا؟ قَالَ لَا. قَالَ فَمَکَثَ النَّبِيُّ فَبَیْنَا نَحْنُ عَلَی ذَلِکَ أُتِيَ النَّبِيُّ بِعَرَقٍ فِیه تَمْرٌ وَالْعَرَقُ الْمِکْتَلُ قَالَ أَیْنَ السَّائِلُ؟ فَقَالَ أَنَا. قَالَ خُذُ هذَا فَتَصَدَّقْ بِه فَقَالَ الرَّجُلُ أَعَلَی أَفْقَرَ مِنِّي یَا رَسُولَ اﷲِ فَوَاﷲِ مَا بَیْنَ لَابَتَیْها یُرِیدُ الْحَرَّتَیْنِ أَهلُ بَیْتٍ أَفْقَرُ مِنْ أَهلِ بَیْتِي. فَضَحِکَ النَّبِيُّ حَتَّی بَدَتْ أَنْیَابُه ثُمَّ قَالَ أَطْعِمْه أَهلَکَ. ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر تھے کہ ایک شخص مجلس میں آیا اور عرض کرنے لگا: یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم! میں ہلاک ہو گیا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم نے پوچھا: تیرے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا؟ اس نے عرض کیا کہ میں رمضان المبارک میں بحالت روزہ اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا ہوں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا: کیا تیرا کوئی غلام ہے جسے تو (اس کے کفارے میں) آزاد کردے؟ وہ عرض کرنے لگا: نہیں یارسول اﷲ۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم نے پوچھا: کیا تو مسلسل دو مہینے کے روزے رکھ سکتا ہے؟ اس نے عرض کی: نہیں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم نے پوچھا: ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے؟ اس نے عرض کیا: نہیں۔ پھر وہ بیٹھا رہا یہاں تک کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم کے پاس ایک ٹوکرا کھجور کا آیا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم نے پوچھا: سائل کہاں گیا؟ وہ کہنے لگا: حاضر ہوں۔

آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا: یہ تھیلا لے جا اور خیرات کر دے۔ وہ کہنے لگا خیرات تو اس پر کروں جو مجھ سے زیادہ محتاج ہو۔ خدا کی قسم مدینے کی اس پوری بستی میں مجھ سے بڑھ کر کوئی محتاج نہیں۔ اس پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم مسکرائے یہاں تک کہ دندان مبارک اندر تک نظر آنے لگے، پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا: اسے لے جا اور اپنے گھر والوں کو کھلا (تیرا کفارہ ادا ہو جائےگا۔