Results 1 to 3 of 3

Thread: سرائیکی سے بغض کیوں

  1. #1
    Saraiki's Avatar
    Saraiki is offline Junior Member
    Last Online
    12th January 2022 @ 12:31 PM
    Join Date
    10 Nov 2015
    Gender
    Male
    Posts
    20
    Threads
    14
    Credits
    311
    Thanked
    0

    Default سرائیکی سے بغض کیوں

    ظہور احمد دھریجہ سرائیکی وسیب

    پنجاب یونیورسٹی شعبہ پنجابی کے سابق چیئرمین و پرنسپل (ر) اورینٹل کالج لاہور پروفیسر ڈاکٹر عصمت اللہ کہتے ہیں کہ ” چاہے مجھے سرائیکی دوست بُرا کہیں لیکن میں پوری دیانتداری سے سمجھتا ہوں کہ سرائیکی پنجابی زبان کا میٹھا لہجہ ہے۔“ نہلے پہ دہلے کے مصداق تو یہ بنتا ہے کہ ہم بھی سوال کریں کہ کیا پنجابی سرائیکی زبان کا کڑوا لہجہ ہے؟ لیکن یہ عامیانہ سی بات ہو جائے گی۔ موقع ملا ہے تو سرائیکی پنجابی تضاد کے حوالے سے کچھ کام کی باتیں ہو جائیں، میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ایک وقت یہ بھی تھا کہ ہم رات دن پنجابی زبان کو سرائیکی کا لہجہ قرار دیتے تھے، اس کی دلیل کے طور پر ہم کہتے کہ حضرت شاہ حسین لاہوری کا کلام سرائیکی لہجے میں لکھا گیا ہے اور اس میں اسی فیصد الفاظ سرائیکی کے استعمال ہوئے ہیں۔ لیکن عمر کے ساتھ ساتھ جونہی سوچ پختہ ہوئی تو ہم نے اپنی سوچ بدل لی اور خود سے خود کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ پنجابی کو ماجھے اور لاہوری بولی کہا گیا، لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ لاہور والوں نے اپنی زبان کو پنجابی کا نام دیدیا،ہم نہ ماننے والے کون ہوتے ہیں؟۔ مزید ہم نے خود کو خود یہ دلیل دی جس پنجابی میں گریجویشن، ماسٹر، ایم فل اور پی ایچ ڈی ہو رہی ہے تو کیا وہ اب بھی لہجہ ہے؟ اب ماشاءاللہ سرائیکی کا بھی میٹرک کا نصاب منظور ہو چکا ہے، ڈی آئی خان اور ٹانک کے تعلیمی اداروں میں سرائیکی پہلی جماعت سے پڑھائی جا رہی ہے، سرائیکی ایف اے اور بی اے میں بھی شامل ہے، سرائیکی میں ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی ہو رہی ہے، یونیورسٹی میں سرائیکی شعبے بھی موجود ہیں، سرکاری سطح پر ریڈیو ٹیلی ویژن کے علاوہ اکادمی ادبیات کی طرف سے سرائیکی کتابوں کے لئے ایوارڈ بھی الگ سے مختص ہے، میں محترم پروفیسر ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد سے کہتا ہوں کہ آپ اپنی آنکھوں سے پنجابی کا چشمہ اتاریں اور پھر دل پرہاتھ رکھ کر ”پوری دیانتداری “ سے بتائیں کہ کیا سرائیکی پنجابی کا لہجہ ہے ؟ اور پھر ”دیانتداری“ سے یہ بھی بتائیں کہ کیا وہ خاص سرائیکی آوازوں کی ادائیگی کر سکتے ہیں اور کیا وہ خاص آوازوں کی سرائیکی املاءوہ پڑھ سکتے ہیں؟ کیا یہ تاریخ کا بد ترین مذاق نہیں کہ سرائیکی کو اس زبان کا لہجہ قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے جس کا لفظ ”پنج آبی“ بھی اپنا نہیں بلکہ فارسی کا ہے۔
    پروفیسر ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد سے پرانی نیاز مندی ہے، جب وہ چیئرمین تھے تو میں اور پروفیسر شوکت مغل ان سے ملنے جاتے، پنجابی ڈیپارٹمنٹ جانے کا مقصد یہ تھا کہ ہم پنجابی زبان سے نفرت نہیں کرتے اور پنجابی زبان کی ترقی کے بھی اسی طرح خواہش مند ہیں جیسے سرائیکی زبان کے۔ افسوس کہ ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد اور دوسرے پنجابی دوستوں کی طرف سے خیرسگالی کے جذبے کا جواب ہمیشہ دلآزاری کی صورت میں ملا ہے۔ اب میں اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں اور بتانا چاہتا ہوں کہ سرائیکی زبان نہ پنجابی کا لہجہ ہے اور نہ سرائیکی خطہ جنوبی پنجاب۔ تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی لحاظ سے پر دیکھا جائے تو سرائیکی خطہ کو جنوبی پنجاب کہنے والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ سرائیکی خطہ جنوبی پنجاب نہیں بلکہ تخت لاہور شمالی سرائیکستان ہے۔ اس سلسلے میں حضرت داتا گنج بخشؒ لاہوری کی کتاب کشف المحجوب دیکھیئے جس میں لکھا ہوا ہے ”لاہور یکے از مضافات ملتان است“ صوبہ ملتان کی حدود کے بارے میں ابوالفضل کی کتاب آئین اکبری دیکھئے، اجمیر تک کے علاقے اس میں شامل ہیں۔
    میں پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ میں ایک ہفتہ رہا، امرتسر گیا، وہاں میں نے سکھوں کی سوچ اور نفسیات کو جہاں تک سمجھا،وہ یہ ہے کہ ان کو اس بات کا کوئی افسوس نہیں کہ پنجاب سے ہریانہ الگ ہو گیا، پنجاب سے ہما چل پردیش الگ صوبہ بن گیا اور ان کو دہلی کے چلے جانے کا بھی کوئی افسوس نہیں البتہ ان کو اگر کوئی افسوس ہے تو وہ لاہور اور ننکانہ صاحب کا ہے اور ان میں اسے ہر صورت حاصل کرنے کی تڑپ اور تمنا موجود ہے، یہ ٹھیک ہے کہ سکھ لاہور میں آتے ہیں تو ان میں سے کچھ پنجابی سکھ لاہور کے مسلم پنجابیوں سے پنجابی بھائی چارے کی بات کرتے ہیں لیکن وہ منافقت کر رہے ہوتے ہیں، دوسری طرف ہمارے لاہور کے مسلم پنجابیوں کو اس کی سمجھ نہیں آتی، پنجابی سکھوں کا کڑا، کرپان، کیس، کچھا اور کنگھا بھی ثقافتی نہیں مذہبی ہے، وہ اس لئے بھی خطرہ ہیںکہ ان کی آبادی 2 فیصد مگر فوج میں 10 فیصد ہے، میں نہیں کہنا چاہتا کہ ہمارے مسلم پنجابی ڈھگے ہیں لیکن سچ پوچھئے تو پاکستان کے پنجابی بھائیوں کا عمل اس سے مختلف نہیں ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ سچ کڑوا ہوتا ہے، میری باتیں شہد کی طرح میٹھی نہیں ان ۔ میں پاکستان کے مسلم پنجابی بھائیوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ خود کشی کی طرف بڑھ رہے ہیں، ایک نفسیاتی مسئلہ یہ بھی ہے کہ خود کشی پر آمادہ شخص کو جتنا روکو وہ اتنا آگے بڑھتا ہے لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ سکھ پنجابیوں سے راہ و رسم بڑھا کر پاکستان کے پنجابی بھائی تیسری مرتبہ بہت بڑے قومی حادثے اور بہت بڑی خود کشی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ 1818ءمیں رنجیت سنگھ نے صرف لاہور کی شاہی مسجد کو اصطبل ہی نہ بنایا مسجدوں میں قرآن مجید کی بے حرمتی کے ساتھ ساتھ مسلم پنجابی بچوں کو بھی تہ و تیغ کیا اور اس کے علاوہ بھی مظالم کی داستان تاریخ کا حصہ ہے، سکھوں نے دوسری مرتبہ مسلم پنجابیوں سے ظلم تقسیم کے وقت کیا، لاکھوں مسلم پنجابیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا اور سرکاری ریکارڈ کے مطابق پچیس ہزار اور غیر سرکاری ریکارڈ کے مطابق اسی ہزار مسلم پنجابی دو شیزاﺅں کو اپنے پاس رکھ لیا اس کے باوجود ہمارے پنجابی بھائیوں کو سمجھ نہیں آئی۔ اب یہ سکھ مشرقی پاکستان سے آتے ہیں تو اہل لاہور ان کو پھولوں کے ہار پہناتے ہیں اور ان کے ساتھ بھنگڑے ڈالتے ہیں اور اگر کوئی سرائیکی فائل کی مجبوری کی بنا پر لاہور چلا ہی جائے تو اس سے کمی اور مزارع سے بھی بد تر سلوک ہوتا ہے، اس لئے میں کہتا ہوں کہ ہمارے پنجابی بھائی تیسری مرتبہ سکھوں سے مار کھانے کی طرف بڑھ رہے ہیں، اللہ تعالیٰ پاکستان کی خیر رکھے اور لاہور کو بھی نظر بد سے بچائے مگر جاتی امراءکا طواف کرنے والے پنجابی بھائیوں کا ان کی اپنی موجودگی میں کوئی اور دشمن نہیں ہو سکتا کہ سکھوںکی مذہبی کتاب ہمارے سرائیکی کے بزرگ بابا فریدؒ کے اشلوکوں پر مشتمل ہے، باعث فخر ہے کہ سکھوںکا پیغمبر ہمارے مرشد بابا فریدؒ کا عقیدت مند ہے، مگر ہمارے حکمران گورو نانک یونیورسٹی بناتے ہیں بابافرید یونیورسٹی نہیں بناتے۔
    میں اپنے لاہوری اور پنجابی بھائیوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی سوچ اور اپنی فکر تبدیل کریں، میں بتانا چاہتا ہوں کہ پنجابیوں کی سرائیکیوں کے ساتھ رشتہ داری ہو سکتی ہے اور ہم نے ایک دوسرے سے رشتے کیے بھی ہیں جبکہ وہ سکھوںکی ہم زبان ہونے کے باوجود ان سے رشتہ داری نہیں کر سکتے، وہ سکھوںکی مذہبی ثقافت والی پگ اپنے سر پر نہیں رکھ سکتے، ہمارے پنجابی دانشور چاہیں بھی تو واہگہ بارڈر پر ویزے کی پابندی ہماری نظریاتی سرحدوں کے محافظ ختم نہیں ہونے دینگے، پاکستان کی کوششوں کے باوجود بھارت پاکستان کے ساتھ اچھے ہمسائے کے طور پر رہنے کے لئے تیار نہیں جبکہ سرائیکی صوبہ بننے پر پنجابی اور سرائیکی ایک دوسرے کے ساتھ اچھے ہمسائے کے طور پر رہ سکتے ہیں، سابقہ تلخیاں اور جھگڑے ختم ہو سکتے ہیں لیکن یہ اس صورت ممکن ہے جب سرائیکی وسیب سے رنجیت سنگھ کی فتوحات کے نشانات کو مٹا کر ہمارا سرائیکی صوبہ ہماری شناخت پر بنایا جائے اور لاہور میں کافراعظم رنجیت سنگھ کی برسی منانے کی بجائے رنجیت سنگھ کا مقابلہ کرنے والے ملتان کے مسلم فرمانروا نواب مظفر خان شہید کی برسی منانے کا اہتمام کیا جائے گا۔
    (سرائیکی اخبار روزنامہ جھوک کے ایڈیٹر ہیں
    اور زیادہ تر سرائیکی مسائل پر لکھتے ہیں۔

  2. #2
    waqasshahid's Avatar
    waqasshahid is offline Senior Member+
    Last Online
    13th October 2020 @ 02:31 PM
    Join Date
    24 Jan 2014
    Gender
    Male
    Posts
    331
    Threads
    48
    Credits
    2,683
    Thanked
    48

    Default

    Quote saraiki said: View Post
    ظہور احمد دھریجہ سرائیکی وسیب

    پنجاب یونیورسٹی شعبہ پنجابی کے سابق چیئرمین و پرنسپل (ر) اورینٹل کالج لاہور پروفیسر ڈاکٹر عصمت اللہ کہتے ہیں کہ ” چاہے مجھے سرائیکی دوست بُرا کہیں لیکن میں پوری دیانتداری سے سمجھتا ہوں کہ سرائیکی پنجابی زبان کا میٹھا لہجہ ہے۔“ نہلے پہ دہلے کے مصداق تو یہ بنتا ہے کہ ہم بھی سوال کریں کہ کیا پنجابی سرائیکی زبان کا کڑوا لہجہ ہے؟ لیکن یہ عامیانہ سی بات ہو جائے گی۔ موقع ملا ہے تو سرائیکی پنجابی تضاد کے حوالے سے کچھ کام کی باتیں ہو جائیں، میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ایک وقت یہ بھی تھا کہ ہم رات دن پنجابی زبان کو سرائیکی کا لہجہ قرار دیتے تھے، اس کی دلیل کے طور پر ہم کہتے کہ حضرت شاہ حسین لاہوری کا کلام سرائیکی لہجے میں لکھا گیا ہے اور اس میں اسی فیصد الفاظ سرائیکی کے استعمال ہوئے ہیں۔ لیکن عمر کے ساتھ ساتھ جونہی سوچ پختہ ہوئی تو ہم نے اپنی سوچ بدل لی اور خود سے خود کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ پنجابی کو ماجھے اور لاہوری بولی کہا گیا، لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ لاہور والوں نے اپنی زبان کو پنجابی کا نام دیدیا،ہم نہ ماننے والے کون ہوتے ہیں؟۔ مزید ہم نے خود کو خود یہ دلیل دی جس پنجابی میں گریجویشن، ماسٹر، ایم فل اور پی ایچ ڈی ہو رہی ہے تو کیا وہ اب بھی لہجہ ہے؟ اب ماشاءاللہ سرائیکی کا بھی میٹرک کا نصاب منظور ہو چکا ہے، ڈی آئی خان اور ٹانک کے تعلیمی اداروں میں سرائیکی پہلی جماعت سے پڑھائی جا رہی ہے، سرائیکی ایف اے اور بی اے میں بھی شامل ہے، سرائیکی میں ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی ہو رہی ہے، یونیورسٹی میں سرائیکی شعبے بھی موجود ہیں، سرکاری سطح پر ریڈیو ٹیلی ویژن کے علاوہ اکادمی ادبیات کی طرف سے سرائیکی کتابوں کے لئے ایوارڈ بھی الگ سے مختص ہے، میں محترم پروفیسر ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد سے کہتا ہوں کہ آپ اپنی آنکھوں سے پنجابی کا چشمہ اتاریں اور پھر دل پرہاتھ رکھ کر ”پوری دیانتداری “ سے بتائیں کہ کیا سرائیکی پنجابی کا لہجہ ہے ؟ اور پھر ”دیانتداری“ سے یہ بھی بتائیں کہ کیا وہ خاص سرائیکی آوازوں کی ادائیگی کر سکتے ہیں اور کیا وہ خاص آوازوں کی سرائیکی املاءوہ پڑھ سکتے ہیں؟ کیا یہ تاریخ کا بد ترین مذاق نہیں کہ سرائیکی کو اس زبان کا لہجہ قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے جس کا لفظ ”پنج آبی“ بھی اپنا نہیں بلکہ فارسی کا ہے۔
    پروفیسر ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد سے پرانی نیاز مندی ہے، جب وہ چیئرمین تھے تو میں اور پروفیسر شوکت مغل ان سے ملنے جاتے، پنجابی ڈیپارٹمنٹ جانے کا مقصد یہ تھا کہ ہم پنجابی زبان سے نفرت نہیں کرتے اور پنجابی زبان کی ترقی کے بھی اسی طرح خواہش مند ہیں جیسے سرائیکی زبان کے۔ افسوس کہ ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد اور دوسرے پنجابی دوستوں کی طرف سے خیرسگالی کے جذبے کا جواب ہمیشہ دلآزاری کی صورت میں ملا ہے۔ اب میں اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں اور بتانا چاہتا ہوں کہ سرائیکی زبان نہ پنجابی کا لہجہ ہے اور نہ سرائیکی خطہ جنوبی پنجاب۔ تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی لحاظ سے پر دیکھا جائے تو سرائیکی خطہ کو جنوبی پنجاب کہنے والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ سرائیکی خطہ جنوبی پنجاب نہیں بلکہ تخت لاہور شمالی سرائیکستان ہے۔ اس سلسلے میں حضرت داتا گنج بخشؒ لاہوری کی کتاب کشف المحجوب دیکھیئے جس میں لکھا ہوا ہے ”لاہور یکے از مضافات ملتان است“ صوبہ ملتان کی حدود کے بارے میں ابوالفضل کی کتاب آئین اکبری دیکھئے، اجمیر تک کے علاقے اس میں شامل ہیں۔
    میں پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ میں ایک ہفتہ رہا، امرتسر گیا، وہاں میں نے سکھوں کی سوچ اور نفسیات کو جہاں تک سمجھا،وہ یہ ہے کہ ان کو اس بات کا کوئی افسوس نہیں کہ پنجاب سے ہریانہ الگ ہو گیا، پنجاب سے ہما چل پردیش الگ صوبہ بن گیا اور ان کو دہلی کے چلے جانے کا بھی کوئی افسوس نہیں البتہ ان کو اگر کوئی افسوس ہے تو وہ لاہور اور ننکانہ صاحب کا ہے اور ان میں اسے ہر صورت حاصل کرنے کی تڑپ اور تمنا موجود ہے، یہ ٹھیک ہے کہ سکھ لاہور میں آتے ہیں تو ان میں سے کچھ پنجابی سکھ لاہور کے مسلم پنجابیوں سے پنجابی بھائی چارے کی بات کرتے ہیں لیکن وہ منافقت کر رہے ہوتے ہیں، دوسری طرف ہمارے لاہور کے مسلم پنجابیوں کو اس کی سمجھ نہیں آتی، پنجابی سکھوں کا کڑا، کرپان، کیس، کچھا اور کنگھا بھی ثقافتی نہیں مذہبی ہے، وہ اس لئے بھی خطرہ ہیںکہ ان کی آبادی 2 فیصد مگر فوج میں 10 فیصد ہے، میں نہیں کہنا چاہتا کہ ہمارے مسلم پنجابی ڈھگے ہیں لیکن سچ پوچھئے تو پاکستان کے پنجابی بھائیوں کا عمل اس سے مختلف نہیں ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ سچ کڑوا ہوتا ہے، میری باتیں شہد کی طرح میٹھی نہیں ان ۔ میں پاکستان کے مسلم پنجابی بھائیوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ خود کشی کی طرف بڑھ رہے ہیں، ایک نفسیاتی مسئلہ یہ بھی ہے کہ خود کشی پر آمادہ شخص کو جتنا روکو وہ اتنا آگے بڑھتا ہے لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ سکھ پنجابیوں سے راہ و رسم بڑھا کر پاکستان کے پنجابی بھائی تیسری مرتبہ بہت بڑے قومی حادثے اور بہت بڑی خود کشی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ 1818ءمیں رنجیت سنگھ نے صرف لاہور کی شاہی مسجد کو اصطبل ہی نہ بنایا مسجدوں میں قرآن مجید کی بے حرمتی کے ساتھ ساتھ مسلم پنجابی بچوں کو بھی تہ و تیغ کیا اور اس کے علاوہ بھی مظالم کی داستان تاریخ کا حصہ ہے، سکھوں نے دوسری مرتبہ مسلم پنجابیوں سے ظلم تقسیم کے وقت کیا، لاکھوں مسلم پنجابیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا اور سرکاری ریکارڈ کے مطابق پچیس ہزار اور غیر سرکاری ریکارڈ کے مطابق اسی ہزار مسلم پنجابی دو شیزاﺅں کو اپنے پاس رکھ لیا اس کے باوجود ہمارے پنجابی بھائیوں کو سمجھ نہیں آئی۔ اب یہ سکھ مشرقی پاکستان سے آتے ہیں تو اہل لاہور ان کو پھولوں کے ہار پہناتے ہیں اور ان کے ساتھ بھنگڑے ڈالتے ہیں اور اگر کوئی سرائیکی فائل کی مجبوری کی بنا پر لاہور چلا ہی جائے تو اس سے کمی اور مزارع سے بھی بد تر سلوک ہوتا ہے، اس لئے میں کہتا ہوں کہ ہمارے پنجابی بھائی تیسری مرتبہ سکھوں سے مار کھانے کی طرف بڑھ رہے ہیں، اللہ تعالیٰ پاکستان کی خیر رکھے اور لاہور کو بھی نظر بد سے بچائے مگر جاتی امراءکا طواف کرنے والے پنجابی بھائیوں کا ان کی اپنی موجودگی میں کوئی اور دشمن نہیں ہو سکتا کہ سکھوںکی مذہبی کتاب ہمارے سرائیکی کے بزرگ بابا فریدؒ کے اشلوکوں پر مشتمل ہے، باعث فخر ہے کہ سکھوںکا پیغمبر ہمارے مرشد بابا فریدؒ کا عقیدت مند ہے، مگر ہمارے حکمران گورو نانک یونیورسٹی بناتے ہیں بابافرید یونیورسٹی نہیں بناتے۔
    میں اپنے لاہوری اور پنجابی بھائیوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی سوچ اور اپنی فکر تبدیل کریں، میں بتانا چاہتا ہوں کہ پنجابیوں کی سرائیکیوں کے ساتھ رشتہ داری ہو سکتی ہے اور ہم نے ایک دوسرے سے رشتے کیے بھی ہیں جبکہ وہ سکھوںکی ہم زبان ہونے کے باوجود ان سے رشتہ داری نہیں کر سکتے، وہ سکھوںکی مذہبی ثقافت والی پگ اپنے سر پر نہیں رکھ سکتے، ہمارے پنجابی دانشور چاہیں بھی تو واہگہ بارڈر پر ویزے کی پابندی ہماری نظریاتی سرحدوں کے محافظ ختم نہیں ہونے دینگے، پاکستان کی کوششوں کے باوجود بھارت پاکستان کے ساتھ اچھے ہمسائے کے طور پر رہنے کے لئے تیار نہیں جبکہ سرائیکی صوبہ بننے پر پنجابی اور سرائیکی ایک دوسرے کے ساتھ اچھے ہمسائے کے طور پر رہ سکتے ہیں، سابقہ تلخیاں اور جھگڑے ختم ہو سکتے ہیں لیکن یہ اس صورت ممکن ہے جب سرائیکی وسیب سے رنجیت سنگھ کی فتوحات کے نشانات کو مٹا کر ہمارا سرائیکی صوبہ ہماری شناخت پر بنایا جائے اور لاہور میں کافراعظم رنجیت سنگھ کی برسی منانے کی بجائے رنجیت سنگھ کا مقابلہ کرنے والے ملتان کے مسلم فرمانروا نواب مظفر خان شہید کی برسی منانے کا اہتمام کیا جائے گا۔
    (سرائیکی اخبار روزنامہ جھوک کے ایڈیٹر ہیں
    اور زیادہ تر سرائیکی مسائل پر لکھتے ہیں۔

    کیا محمد الرسول اللہ ﷺ کی امت میں ایسے تشخص (سرئیکی ،پنجابی وغیرہ ) کی کوئی گنجائش ہے ۔

    پیر مشرق یاد آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
    تم سبھی کچھ ہو بتاؤ مسلمان بھی ہو

    افسوس صد افسوس پہلے امت میں مذہبی اختلافات کم تھے کیا جو اب یہ مقامی ،لسانی ،گروہی اور عمرانی اختلافات کو ہوا دی جارہی ۔خدارا ہو ش کے ناخن لو مسلمانو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    کس طرف جارہے ہو تم ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
    پانی کسی بھی دریاکا ہو ،کسی بھی ندی کا ہو،کسی بھی آبشار کا ہو،کسی بھی سیلابی ریلے کا ہو
    جب ہو سمندر میں مل جائے تو اسکی ہر پہچان ختم ہو جاتی ہے تب وہ پانی ہوتا ہے صرف سمندر کا
    آپ کوئی بھی ہیں جب آپ امت محمد الرسول اللہﷺ میں شامل ہوگئے تو آپ کی ساری شناختیں ختم ہوگئی ہیں ۔اب آپ صرف امت ہیں۔
    استاد سب سے بڑا شاگرد ہوتاہے۔

  3. #3
    Saraiki's Avatar
    Saraiki is offline Junior Member
    Last Online
    12th January 2022 @ 12:31 PM
    Join Date
    10 Nov 2015
    Gender
    Male
    Posts
    20
    Threads
    14
    Credits
    311
    Thanked
    0

    Default

    SURAH HUJURAT AYAT 13
    لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے ﴿۱۳﴾

    بھائی میرے شناخت قوم قبیلے یہ ایک شرعی مسئلہ ہے جب اللہ تعالٰی خود قرآن مجید میں ارشاد فرما رہے ہیں تو ھم کیوں انکار کریں

Similar Threads

  1. Replies: 10
    Last Post: 15th February 2018, 12:42 PM
  2. Replies: 13
    Last Post: 29th July 2016, 01:01 PM
  3. Replies: 10
    Last Post: 7th December 2014, 06:59 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •