سرائیکی زبان پڑھنے اور لِکھنے کا شوق رکھنے والوں کے لیے کئی بُنیادی قاعدے قبل اَزیں تالیف ہو چکے ہیں جو مفید و مَددگار ثابت ہو رہے ہیں، لیکن کچھ لوگوں کے نزدیک شاید وہ اُلجھا دینے والا عَمل بَن کر رَہ گئے ہیں۔ سہل نگاری کے شائقین کی خاطر اِس مضمون میں مختصراً سرائیکی پڑھنے کا آسان کُلّیہ پیش کر رہا ہوں جو لِکھنے والوں کے لیے بھی مفید و معاون ثابت ہوگا۔ اِس کلیّہ کو یاد کر لینے والا ہر وہ شخص جو اُردو یا پنجابی پڑھ سکتا ہو بہت جلد وہ صحیح تلفّظ میں سرائیکی پڑھ لِکھ سکے گا۔ اِنشاء اللہ!

قابلِ غور بات یہ ہے کہ اُردو قاعدے میں جتنے مفرد حروف یا مُرکّب الفاظ ہیں وہی تمام کے تمام سرائیکی میں بھی اِستعمال ہوتے ہیں۔ مگر یہ بھی یاد رہے کہ کسی بھی زبان کا لہجہ اختیار کرنے کے لیے چند ضروری باتیں توّجہ طلب ہوتی ہیں جو کہ سرائیکی کے لیے بھی ہیں۔ ‘‘اَلف’’ سے لے کر ‘‘ی’’ تک جِتنے حروف اُردو والے ہیں اِن میں سے صرف پانچ حروف ایسے ہیں جن کو پڑھتے وقت زبان کو نرمی کے ساتھ مُنہ ڈِھیلا کر کے اِستعمال کرنا ہوتا ہے اُن مخصوص حروف کی نشانی یہ ہے کہ اُن کے نیچے یا اُوپر ایک اِضافی نقطہ لگایا جاتا ہے (محض پڑھنے والوں کی یاد دہانی کے لیے) یہ نقطہ عمُودی طور پر لکھا جاتا ہے۔ وہ مذکورہ حروف یہ ہیں:

‘‘ٻ’’ ۔ ‘‘ڄ’’ ۔ ‘‘ݙ’’ ۔ ‘‘ڳ’’ اور پانچواں حَرف ہے ‘‘نون’’ جِس کے اُوپر ایک اِضافی ‘‘ط’’ لِکھا جاتا ہے وہ اِس طرح ‘‘ݨ’’ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ اُوپر والے چار حروف کو جو اِضافی نقطے کے ساتھ لِکّھے گئے ہیں، کو نرم زبانی سے پڑھنا ہے جبکہ اِس اِضافی ‘‘ط’’ والے ‘‘نُون’’ کو غُنّہ کر کے ‘‘ڑ’’ کی آواز میں پڑھنا ہے، جیسے ‘‘چَکّھݨ، رووَݨ، کَھاوَݨ، پِیوَݨ’’ والے لفظوں میں صَوتی اَثر پیدا ہوتا ہے۔

سَرائیکی تحریر پڑھنے کے لیے اِسی بُنیادی کُلیئے کو یاد کر لینے کے بعد چند مزید درج ذیل باتوں کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ (ہمزہ) ‘‘ء’’ الف کے ہی صَوتی اَثر کے طور پر لِکھا جاتا ہے مثلاً ‘‘ءِچ’’ یا ‘‘اِچ’’ دونوں کا معنیٰ ایک ہی بنتا ہے یعنی ‘‘بِیچ’’۔

ایک اور لفظہ ہے ‘‘کیا ڳال ہِے’’ کے آخر میں پُورا ‘‘ہِے’’ لِکھنے کی بجائے اِختصار سے کام لیتے ہوئے صِرف ‘‘ھِ’’ بِھی لکھ دیا جاتا ہے۔ اور تحریر کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اِس کو کِس اَنداز میں لِکھے۔ یہ بھی وُسعتِ زبان کا ایک خاصّہ ہِے کیونکہ اِس ایک حرف ‘‘ھِ’’ کو نیچے زیر لَگا دینے سے ہی مُدعائے کلام پُورا ہوجاتا ہے۔

ایک اور لفظ اُردو عبارت میں ہے ‘‘تاکہ’’ اس کی جگہ سرائیکی میں لفظ ‘‘تاں ڄو’’ ہے۔ اِسی طرح ‘‘لیکن’’ کی جگہ سَرائیکی میں لفظ ‘‘پَر’’ اور ‘‘جبکہ’’ کی جگہ ‘‘ڄَݙاں ڄو’’ اور ‘‘کیونکہ’’ کا متبادل ہِے کِیُوں ڄو’’۔

کسی بھی سرائیکی تحریر میں اِن اَلفاظ کا اِستعمال زیادہ تر لکھنے میں آتا ہے۔ لہٰذا سرائیکی پڑھنے والے حضرات اِن لفظوں کی تکرار سے پریشان نہ ہوں بلکہ ان کی ضرورتِ لفظی کو جان لیں۔

آئیے ایک وضاحت یہ بھی کرتے چلیں کہ بعض مفکّرینِ سَرائیکی لِسّانیات و گرائمر نے تحریر کرتے وقت مذکورہ حروف کے نیچے ایک کی بجائے بعض متذکرہ حروف پر نشاندہی کی غرض سے دو (۲) اِضافی نقطے بھی لگانے کے عمل کو رِواج دیا ہے جیسے ‘‘ڳ’’ اور بعض نے اِن دو حروف ‘‘ڈ’’ اور ‘‘گ’’ پر اُوپر کی طرف نشاندہی کے لیے اِضافی نقطہ لگانے کو رواج دیا ہے اور جناب پروفیسر دِلشاد کلانچوی اِس کے عامِل تھے۔ یہ سب اِس لیے دُرست ہے کہ یہ ایک ضمنی ترمیم ہے کوئی بنیادی اِختلافِ تحریر نہیں۔ مقصد محض وہی ہے کہ ان حروف کو ایک یا دو اِضافی نقطوں کی نشاندہی کر کے بتلانا یہی مقصود ہے کہ اِن مخصوص صَوتی اَثر والے سَرائیکی لفظوں کو نرم زبان سے اَدا کیا جائے۔ نقطوں کے معاملے کو اِسی ہدایت میں ذہن نشین کر لیا جائے اور پوری روانی کے ساتھ سَرائیکی زبان پڑھنے کا لطف اُٹھایا جائے۔

(سرائیکی زبان دے بارے وچ ہک اردو مضمون) سرائیکی زُبان کی ایک اہمیّت یہ بھی ہے کہ عربی زبان کی طرح یہ بڑی فصیح و بلیغ زبان ہے۔ جس طرح عربی زبان میں زَبر، زیر، پیش کے فرق پر بعض لفظوں میں صیغہ اور بعض میں معنیٰ تک بدل جاتا ہے، سرائیکی زبان کا معاملہ بھی کچھ اِسی طرح کا ہے، ایک لفظ جو مذکّر کے لیے اِستعمال ہوتا ہے وہ مؤنث کے لیے بھی، اِس کی مثال کے لیے یہ چند لفظ دیکھئے: ‘‘کُکُڑ’’ بمعنیٰ مُرغا کے ہے تو ‘‘کُکِّڑ’’ مُرغی، اِسی طرح ‘‘چُھوہَر’’ (لڑکا) تو ‘‘چُھوہِر’’ (لڑکی) اور اَب دیکھیے اِن اَعراب کے نیچے یا اُوپر ہو جانے کی صورت میں لفظ کا معنیٰ کیسے بَدلتا ہے: ایک سرائیکی لفظ ہے ‘‘ٻَولی’’ (گائے بھینس کا پہلا ناڑہ) اور اگر اِسی ‘‘ٻ’’ پر پیش لگ جائے تو یَکسر معنیٰ بَدل جاتا ہے وہ یُوں: ‘‘ٻُولی’’ (اِس سے مُراد قمیض کا کَف ہے)، ایک اور لفظ دیکھئے جیسے ‘‘کِھلّݨ’’ بمعنیٰ مُسکرانے کے ہے۔ ل