تو ‘‘کُھلّݨ’’ بمعنیٰ دروازہ یا کسی چیز کے کُھلنے کے زُمرے میں آتا ہے۔ ایک اور مثال دیکھئے: لفظ ہے ‘‘پَھٹَّݨ’’ (پَھٹ جانے سے مُراد) اَب اِسی لفظ کے نیچے زیر لگا دیں تو بن جائے گا ‘‘پِھٹّݨ’’ (ناراض ہونے کی کیفیت) اور اَب اِسی لفظ پر پیش لگا دیں تو بَن جائے گا ‘‘پُھٹَّݨ’’ (یعنی بھاگ جانا)۔

ایک اور سرائیکی لفظ لیجئے ‘‘کُوڑ’’ (اِس کا معنیٰ ہے جھوٹ) اَب اِسی لفظ پر پیش کی بجائے زبر لگا دیں تو بنے گا ‘‘کَوڑ’’ (یعنی کَڑوَاہٹ) ایسی سینکڑوں مثالیں بھی ہیں۔ اِن چَند مثالوں کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عربی زبان کی طرح سرائیکی تحریر میں بھی جو زیر، زَبر، پیش لکھا گیا ہو اُسے خصوصی توّجہ سے پڑھنا لازم ہے تبھی سرائیکی یا پنجابی زبان کے صحیح لفظ اَدا ہو پائیں گے۔

پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لیے ایک اور اہم بات بتلا دوں جو کہ بڑی قابلِ غور ہے۔ آپ نے اکثر احباب کو یہ کہتے ہوئے سُنا ہوگا کہ ‘‘سرائیکی ایک میٹھی زبان ہے’’ تو کبھی کسی نے اِس اَمر پر غور کیا کہ اِس میں مِٹھاس کِس شکر (چینی) سے آئی ہے؟

اِس ضمن میں یہ واضح کر دینا از بس ضروری ہے کہ ہم نے اپنے اِس مضمون میں جن اضافی نقطوں والے حروف کا ذِکر کیا ہے کہ ان کا صَوتی اَثر بدلنے کے لیے انہیں جس نَرم خُوئی سے اَدا کرنا ہوتا ہے زبان کی وہی لوچ ہی مٹھاس کا درجہ رکھتی ہے، چونکہ زبان سے لفظوں کی ادائیگی میں سختائی ختم ہوجاتی ہے نتیجتاً سرائیکی زبان بولنے میں ایک مٹھاس سی پیدا ہوجاتی ہے جو سُننے والوں کی سماعت میں رَس گھولتی ہے، اِسی لیے نہ صرف یہ جملہ عرفِ عام میں کہا جاتا ہے بلکہ اس کُلّیئے کی بِناء پر حقیقتاً یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ واقعی سرائیکی ایک میٹھی زبان ہے۔ تو لیجئے اِس ضمن میں راقم کا ایک سَرائیکی شعر پڑھ لیجئے:

ڄیکُوں سُݨ تے اُکھڑی نِندر کُوں آندی ہِے پَئی لولِی

لارَیب ہِے اُو خَواجہ سَئیںؒ دی مِٹھڑی سَرائیکی ٻولی

سرائیکی زبان میں تشبیہات اور اِستعارات کی چاشنی، خیالات کی خوشبو، کلاسیکل رِدَم، نَرم خُوئی کے باعث کانوں میں رَس گھولتی شیرینی، الفاظ و معانی کی وُسعت اور فصاحت و بلاغت کا ایک سمندر موجزن ہے۔ لیکن جب ہم احساسِ کمتری یا روایتی بے توجّہی کے باعث اَپنی مادری زبان کو اپنے بچوں کے ساتھ گریز کی پالیسی اَپنائیں گے تو اپنی آنیوالی نسلوں کے ساتھ بہت بڑا ظلم کریں گے۔

حضرت سلطان باہوؒ کا صوفیانہ کلام فیض مدام سرائیکی زبان کے جھنگوی لہجے کا بے مثل شاہکار ہے۔ اِسی طرح حضرت بابا فرید شکر گنجؒ کا کلام سرائیکی کے پنجابی لہجے کا، تو تاجدارِ سرائیکی حضرت خواجہ غلام فریدؒ (کوٹ مٹھن) کا عارفانہ کلام جو کہ ‘‘دیوانِ فرید’’ کی صورت میں یکجا کیا گیا ہے سَرائیکی زبان کے ملتانی، ڈیروی اور ریاستی (بہاولپوری) لہجوں کے اِشتراک کا عظیم شاہکار ہے جو کہ سَرائیکی زبان کی صورت میں یَکجا کیا گیا ہے سَرائیکی زبان کے ملتانی، ڈیروی اور ریاستی (بہاولپوری) لہجوں کے اشتراک کا عظیم شاہکار ہے جو کہ سرائیکی زبان کی اصل معراج ہے یہ بات اَغلب ہے کہ خواجہ صاحب کے کلام میں سرائیکی کا قدیم ملتانی لہجہ غالب ہے جبکہ ان کے استعارے سابق ریاست بہاولپور کے خطہ روہی، تھل وغیرہ کے معروف و مذکور ہیں۔

زیرِ مطالعہ قرآن پاک ہٰذا کا سرائیکی ترجمہ بہاولپوری (ریاستی) لہجہ کی سرائیکی کا نمائندہ ہے جو کہ نہایت سہل اور سَادہ انداز کا بھی حامل ہے۔ پروفیسر دِلشاد کلانچوی (مرحوم) نے حَتُی الاِمکان ترجمے کا حق اَدا کرنے کی اپنے تئیں پُوری کوشش کی ہے۔، مترجم کی سرائیکی زبان و اَدب سے والہانہ محبت یہ بات ثابت کرتی ہے کہ انہوں نے متذکرہ بالا صُوفیاءِ کرام کے رُوحانی تصّرف کو اپنے وِجدان کے ذریعے آشکار کیا ہے، اور تمام پاکیزہ جذبوں کو یکجا کر کے کلامُ اللہ کے ترجمے کا فریضہ سر اَنجام دیا ہے۔ جو طریقہ راقم نے قبل ازیں لکھ دیا ہے اگر اُسے پیشِ نظر رَکھ کر پڑھیں تو مجھے یقینِ کامل ہے کہ ہر خواندہ شخص اس ترجمے کو بآسانی پڑھ کر قرآنِ کریم کے مفہوم و مطالب کو سمجھ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن پاک پڑھنے اور اسے صحیح معنوں میں سمجھنے کی توفیق و استطاعت نصیب فرمائے۔ (آمین ثُمَّ آمین)۔