Results 1 to 8 of 8

Thread: اعتکاف کی اہمیت

  1. #1
    lost_illlusion is offline Senior Member+
    Last Online
    10th May 2022 @ 08:50 PM
    Join Date
    12 May 2019
    Age
    25
    Gender
    Male
    Posts
    205
    Threads
    45
    Credits
    1,515
    Thanked
    29

    Default اعتکاف کی اہمیت

    تمہید:

    اعتکاف اسلامی عبادات میں سے ایک اہم عبادت ہے، اس کا درجہ ومقام بڑا اونچاہے اور اس کے فضائل بے شمار ہیں، لیکن اکثر لوگ اس کی حقیقت سے ناواقف، اس کے فضائل سے بے خبر اور اس کے مسائل واحکام سے نابلد ہیں، اس لیے یہ ضروری معلوم ہوا کہ اس اہم ترین عبادتِ اسلام کی حقیقت واہمیت کو اجاگر اور اس کے فضائل ومسائل کو واضح کیا جائے۔

    *اعتکاف کی تعریف:*

    اعتکاف کے معنیٰ لغت میں کسی چیز کو لازم پکڑ لینے اور محبوس ہوجانے کے ہیں، مثلاً کسی نے اپنے رہنے کے لیے کسی خاص مکان کا انتخاب کرکے اس کو لازم پکڑلیا یا کسی نے تجارت کو اپنا لازمی پیشہ بنالیا تو یہ لغت میں اعتکاف کہلاتا ہے اور شرعی اصطلاح میں مخصوص عبادت کو مخصوص وقت میں، مخصوص شرائط پر، مخصوص جگہ میں لازم کرلینے کو اعتکاف کہتے ہیں۔(تفسیر قرطبی:۲/۳۳۲)

    اور علامہ جرجانی رحمہ اللہ نے اعتکاف کی شرعی تعریف اس طرح فرمائی ہے:

    *’’وفي الشرع لبث صائم في مسجد جماعۃ بنیۃ و تفریغ القلب عن شغل الدنیا و تسلیم النفس إلی المولی ‘‘*

    ''روزہ دار کا نیت کے ساتھ ایسی مسجد میں قیام کرنا جہاں جماعت ہوتی ہو اور دنیا کے مشاغل سے اپنے دل کو خالی کرلینا اور اپنا نفس مولیٰ کے حوالے کردینا۔'' (التعریفات للجرجانی:۴۷)

    *اعتکاف کی ضرورت:*

    حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ ’’ حجۃ اللہ البالغہ ‘‘ میں اعتکاف کی ضرورت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

    ’’بعض اوقات انسان اپنی باطنی سمجھ کی بدولت یہ معلوم کرلیتا ہے کہ امور معاش میں اس کے لیے توغل کرنا (یعنی حد سے زیادہ منہمک ہونا) سخت مضر ہے، اسی طرح اگر اس کے حواس خمسہ(ظاہرہ) بیرونی واقعات کا اثر قبول کرتے رہیں تو اس سے اس کا آئینۂ قلب سخت مکدر ہوتاہے، اس سے خلاصی پانے کی تدبیر اس کو یہ سوجھتی ہے کہ تمام اشغال کو چھوڑ چھاڑ کر مسجد میں بیٹھ جائے اور اپنے تمام اوقاتِ عزیز کو اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی عبادت میں صرف کرلے، لیکن اس پر مداومت کرنا اس کو ناممکن نظر آتا ہے، فوراً اس کے ذہن میں اصول آجاتاہے کہ: ’’مَا لایُدرَکُ کُلُّہ لایُترَکُ کُلُّہ‘‘ کہ جس چیز کو پورے طور پر حاصل نہ کیا جا سکے، اس کو پورے طور پر چھوڑنا بھی نہ چاہئے، اس لیے وہ اپنے اشغال سے وقت فرصت نکال کر تدبیر مذکور کو جزوی طور پر عمل میں لاتا ہے، اسی کانام شرع میں اعتکاف ہے۔‘‘ (حجۃ اﷲ البالغہ)

    حاصل یہ ہے کہ دنیوی علائق اور مصروفیات کی وجہ سے انسانی قلب پر جو کدورت ومیل آجاتا ہے اور اس کو دھونے اور صاف کرنے کی ضرورت ہر صاحب عقل و بصیرت محسوس کرتا ہے، لہذا اس کے لیے ایک آسان تدبیر یہ ہے کہ کچھ دنوں کے لیے ان دنیوی علائق سے خود کو آزاد کر لیا جائے اور اللہ کی یاد میں خود کو لگایا جائے اور بزبان حال یوں گویا ہوتا ہے کہ:
    ''اے اللہ! جب تک تو مجھ سے راضی نہ ہوگا میں واپس نہیں لوٹوں گا۔'' اسی کانام اعتکاف ہے۔

    حضرت عطاء رحمہ اللہ نے اسی حقیقت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:

    *’’إن مثل المعتکف مثل المحرم ألقی نفسہ بین یدی الرحمن فقال: واﷲ لا أبرح حتی ترحمني‘‘*

    ''اعتکاف کرنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے احرام پہننے والا حاجی کہ وہ رحمٰن کے سامنے اپنے آپ کو ڈال دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس وقت تک نہیں لوٹوں گا جب تک کہ تو مجھ پر رحم نہ کردے۔'' ( شعب الایمان:۳/۴۲۶)

    *اعتکاف کی حکمتیں:*

    اعتکاف کی حکمتیں علماء نے بہت سی بیان فرمائی ہیں، من جملہ ان کے یہ بھی ہیں:

    (۱)۔۔۔ چوں کہ اعتکاف مسجد میں ہوتا ہے، اس لیے مسجد میں رہنے کی وجہ سے ہر وقت نماز کا جماعت سے ادا کرنا آسان ہوگا۔
    (۲)۔۔۔ بہت سی لغو وگناہ کی باتوں سے وہ بچا رہے گا، کیوں کہ مسجد میں وہ کام نہیں ہوسکتے۔
    (۳)۔۔۔ ذہنی انتشار وقلبی اضطراب سے محفوظ رہے گا، کیوں کہ یکسوئی کی جگہ میں یکسوئی حاصل ہوا کرتی ہے۔
    (۴)۔۔۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کو ہر وقت ثواب ملتا رہے گا اور اللّٰہ تعالیٰ کا قرب ورضا حاصل ہوگی۔

    *ایک شبہ کا جواب:*

    بعض لوگ اعتکاف پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کیا عبادت ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مسجد میں بیٹھ جائیں اور اس پر ایک حدیث بھی پیش کرتے ہیں:

    ’’لَارَہْبَانِیَّۃَ فِیْ اْلِاسْلَامِ‘‘ کہ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔

    اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح حدیث میں’’لَارَہْبَانِیَّۃَ فِیْ اْلِاسْلَامِ‘‘ آیا ہے، اسی طرح حدیث میں اعتکاف کے فضائل بھی وارد ہوئے ہیں تو تم ایک حدیث کو لیتے ہو اور دوسری کو چھوڑتے ہو؟ اسلام کا اقرار کرنے والا ایسا نہیں کرسکتا، پھر بھی اگر کرتا ہے تو وہ ہم پر نہیں اسلام پر اعتراض کر رہا ہے۔

    اس کے علاوہ اعتکاف کو رہبانیت قرار دینا بالکل غلط ہے، اس لیے کہ رہبانیت کا مطلب یہ ہے کہ تمام دنیوی علائق سے بے تعلق ہوکر رہ جائے، جبکہ اعتکاف میں اس طرح نہیں ہوتا، بلکہ اس میں ہر طرح کا صحیح تعلق قائم رکھا جاتا ہے، ہاں البتہ اپنے آپ کو خدا کے حوالہ کردیا جاتا ہے اور اس کے در پر رہنے کو اپنے لیے فضیلت کی چیز سمجھا جاتاہے۔


    Sent from my XT1254 using Tapatalk

  2. #2
    Rashid Jaan is offline Advance Member
    Last Online
    11th February 2024 @ 02:14 PM
    Join Date
    18 Oct 2016
    Location
    Ghotki Sindh
    Age
    26
    Gender
    Male
    Posts
    1,512
    Threads
    91
    Thanked
    84

    Default

    جزاک اللہ

  3. #3
    GujratCity's Avatar
    GujratCity is offline Advance Member
    Last Online
    Yesterday @ 07:20 PM
    Join Date
    30 Jun 2012
    Location
    Gujrat > London
    Gender
    Male
    Posts
    2,749
    Threads
    389
    Credits
    7,670
    Thanked
    255

    Default

    JazakAllah

  4. #4
    Lovely Men's Avatar
    Lovely Men is offline Advance Member
    Last Online
    20th February 2024 @ 07:25 PM
    Join Date
    27 Sep 2019
    Location
    Islamabd
    Age
    38
    Gender
    Male
    Posts
    1,153
    Threads
    81
    Credits
    5,773
    Thanked
    46

    Default


  5. #5
    Baazigar's Avatar
    Baazigar is offline V.I.P
    Last Online
    17th March 2024 @ 08:40 PM
    Join Date
    16 Aug 2009
    Location
    Makkah , Saudia
    Gender
    Male
    Posts
    29,907
    Threads
    482
    Credits
    148,884
    Thanked
    970

    Default

    جزاك الله خير

  6. #6
    Haseeb Alamgir's Avatar
    Haseeb Alamgir is offline Super Moderator
    Last Online
    Yesterday @ 08:57 PM
    Join Date
    09 Apr 2009
    Location
    KARACHI&
    Gender
    Male
    Posts
    19,273
    Threads
    411
    Credits
    39,647
    Thanked
    1813

    Default

    جزاک اللہ
    اعتکاف کے حوالے سے مفید معلومات آپ نے ہمارے ساتھ شئیر کیں
    اور بتایا کہ
    ''اے اللہ! جب تک تو مجھ سے راضی نہ ہوگا میں واپس نہیں لوٹوں گا۔'' اسی کانام اعتکاف ہے

  7. #7
    Xizular is offline Senior Member+
    Last Online
    14th January 2023 @ 03:06 AM
    Join Date
    13 May 2020
    Age
    27
    Gender
    Male
    Posts
    41
    Threads
    2
    Credits
    240
    Thanked: 1

    Default


  8. #8
    BIG BROTHER's Avatar
    BIG BROTHER is offline Super Moderator
    Last Online
    Yesterday @ 09:25 PM
    Join Date
    18 May 2009
    Location
    Karachi
    Gender
    Male
    Posts
    16,392
    Threads
    150
    Credits
    18,227
    Thanked
    721

    Default

    Quote lost_illlusion said: View Post
    تمہید:

    اعتکاف اسلامی عبادات میں سے ایک اہم عبادت ہے، اس کا درجہ ومقام بڑا اونچاہے اور اس کے فضائل بے شمار ہیں، لیکن اکثر لوگ اس کی حقیقت سے ناواقف، اس کے فضائل سے بے خبر اور اس کے مسائل واحکام سے نابلد ہیں، اس لیے یہ ضروری معلوم ہوا کہ اس اہم ترین عبادتِ اسلام کی حقیقت واہمیت کو اجاگر اور اس کے فضائل ومسائل کو واضح کیا جائے۔

    *اعتکاف کی تعریف:*

    اعتکاف کے معنیٰ لغت میں کسی چیز کو لازم پکڑ لینے اور محبوس ہوجانے کے ہیں، مثلاً کسی نے اپنے رہنے کے لیے کسی خاص مکان کا انتخاب کرکے اس کو لازم پکڑلیا یا کسی نے تجارت کو اپنا لازمی پیشہ بنالیا تو یہ لغت میں اعتکاف کہلاتا ہے اور شرعی اصطلاح میں مخصوص عبادت کو مخصوص وقت میں، مخصوص شرائط پر، مخصوص جگہ میں لازم کرلینے کو اعتکاف کہتے ہیں۔(تفسیر قرطبی:۲/۳۳۲)

    اور علامہ جرجانی رحمہ اللہ نے اعتکاف کی شرعی تعریف اس طرح فرمائی ہے:

    *’’وفي الشرع لبث صائم في مسجد جماعۃ بنیۃ و تفریغ القلب عن شغل الدنیا و تسلیم النفس إلی المولی ‘‘*

    ''روزہ دار کا نیت کے ساتھ ایسی مسجد میں قیام کرنا جہاں جماعت ہوتی ہو اور دنیا کے مشاغل سے اپنے دل کو خالی کرلینا اور اپنا نفس مولیٰ کے حوالے کردینا۔'' (التعریفات للجرجانی:۴۷)

    *اعتکاف کی ضرورت:*

    حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ ’’ حجۃ اللہ البالغہ ‘‘ میں اعتکاف کی ضرورت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

    ’’بعض اوقات انسان اپنی باطنی سمجھ کی بدولت یہ معلوم کرلیتا ہے کہ امور معاش میں اس کے لیے توغل کرنا (یعنی حد سے زیادہ منہمک ہونا) سخت مضر ہے، اسی طرح اگر اس کے حواس خمسہ(ظاہرہ) بیرونی واقعات کا اثر قبول کرتے رہیں تو اس سے اس کا آئینۂ قلب سخت مکدر ہوتاہے، اس سے خلاصی پانے کی تدبیر اس کو یہ سوجھتی ہے کہ تمام اشغال کو چھوڑ چھاڑ کر مسجد میں بیٹھ جائے اور اپنے تمام اوقاتِ عزیز کو اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی عبادت میں صرف کرلے، لیکن اس پر مداومت کرنا اس کو ناممکن نظر آتا ہے، فوراً اس کے ذہن میں اصول آجاتاہے کہ: ’’مَا لایُدرَکُ کُلُّہ لایُترَکُ کُلُّہ‘‘ کہ جس چیز کو پورے طور پر حاصل نہ کیا جا سکے، اس کو پورے طور پر چھوڑنا بھی نہ چاہئے، اس لیے وہ اپنے اشغال سے وقت فرصت نکال کر تدبیر مذکور کو جزوی طور پر عمل میں لاتا ہے، اسی کانام شرع میں اعتکاف ہے۔‘‘ (حجۃ اﷲ البالغہ)

    حاصل یہ ہے کہ دنیوی علائق اور مصروفیات کی وجہ سے انسانی قلب پر جو کدورت ومیل آجاتا ہے اور اس کو دھونے اور صاف کرنے کی ضرورت ہر صاحب عقل و بصیرت محسوس کرتا ہے، لہذا اس کے لیے ایک آسان تدبیر یہ ہے کہ کچھ دنوں کے لیے ان دنیوی علائق سے خود کو آزاد کر لیا جائے اور اللہ کی یاد میں خود کو لگایا جائے اور بزبان حال یوں گویا ہوتا ہے کہ:
    ''اے اللہ! جب تک تو مجھ سے راضی نہ ہوگا میں واپس نہیں لوٹوں گا۔'' اسی کانام اعتکاف ہے۔

    حضرت عطاء رحمہ اللہ نے اسی حقیقت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:

    *’’إن مثل المعتکف مثل المحرم ألقی نفسہ بین یدی الرحمن فقال: واﷲ لا أبرح حتی ترحمني‘‘*

    ''اعتکاف کرنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے احرام پہننے والا حاجی کہ وہ رحمٰن کے سامنے اپنے آپ کو ڈال دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس وقت تک نہیں لوٹوں گا جب تک کہ تو مجھ پر رحم نہ کردے۔'' ( شعب الایمان:۳/۴۲۶)

    *اعتکاف کی حکمتیں:*

    اعتکاف کی حکمتیں علماء نے بہت سی بیان فرمائی ہیں، من جملہ ان کے یہ بھی ہیں:

    (۱)۔۔۔ چوں کہ اعتکاف مسجد میں ہوتا ہے، اس لیے مسجد میں رہنے کی وجہ سے ہر وقت نماز کا جماعت سے ادا کرنا آسان ہوگا۔
    (۲)۔۔۔ بہت سی لغو وگناہ کی باتوں سے وہ بچا رہے گا، کیوں کہ مسجد میں وہ کام نہیں ہوسکتے۔
    (۳)۔۔۔ ذہنی انتشار وقلبی اضطراب سے محفوظ رہے گا، کیوں کہ یکسوئی کی جگہ میں یکسوئی حاصل ہوا کرتی ہے۔
    (۴)۔۔۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کو ہر وقت ثواب ملتا رہے گا اور اللّٰہ تعالیٰ کا قرب ورضا حاصل ہوگی۔

    *ایک شبہ کا جواب:*

    بعض لوگ اعتکاف پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کیا عبادت ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مسجد میں بیٹھ جائیں اور اس پر ایک حدیث بھی پیش کرتے ہیں:

    ’’لَارَہْبَانِیَّۃَ فِیْ اْلِاسْلَامِ‘‘ کہ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔

    اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح حدیث میں’’لَارَہْبَانِیَّۃَ فِیْ اْلِاسْلَامِ‘‘ آیا ہے، اسی طرح حدیث میں اعتکاف کے فضائل بھی وارد ہوئے ہیں تو تم ایک حدیث کو لیتے ہو اور دوسری کو چھوڑتے ہو؟ اسلام کا اقرار کرنے والا ایسا نہیں کرسکتا، پھر بھی اگر کرتا ہے تو وہ ہم پر نہیں اسلام پر اعتراض کر رہا ہے۔

    اس کے علاوہ اعتکاف کو رہبانیت قرار دینا بالکل غلط ہے، اس لیے کہ رہبانیت کا مطلب یہ ہے کہ تمام دنیوی علائق سے بے تعلق ہوکر رہ جائے، جبکہ اعتکاف میں اس طرح نہیں ہوتا، بلکہ اس میں ہر طرح کا صحیح تعلق قائم رکھا جاتا ہے، ہاں البتہ اپنے آپ کو خدا کے حوالہ کردیا جاتا ہے اور اس کے در پر رہنے کو اپنے لیے فضیلت کی چیز سمجھا جاتاہے۔


    Sent from my XT1254 using Tapatalk
    جزاک اللہ

Similar Threads

  1. Replies: 6
    Last Post: 20th June 2011, 06:07 AM
  2. Replies: 0
    Last Post: 21st March 2011, 12:00 PM
  3. Replies: 9
    Last Post: 6th March 2011, 10:24 PM
  4. Replies: 13
    Last Post: 26th January 2011, 07:07 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •