چند روز پہلے یو ایس آرمي جرنل میں پاکستان کا ايک مختصر اوربدلہ ہوا نقشہ منظر عام پرآيا ۔اس پر وطن دوست حلقوں ميں تشويش پيدا ہونا ايک فطري سي بات تھي۔ ليکن جاننے والے جانتے ہيں کہ امريکہ اوراس کے ساتھي ايک عرصے سے عالم اسلام کو مزيد چھوٹي چھوٹي رياستوں ميں تقسيم کرنے کے منصوبے پر کام کررہے ہيں۔ اس سلسلے ميں استعماري طاقتوں کو سب سے بڑي کاميابي اُس وقت حاصل ہوئي جب وہ ترک عثمانيوں کي عظيم خلافت کے حصے بخرے کرنے ميں کامياب ہوگئيں۔ شايد سادہ دل مسلمان اس پر خوش ہوتے ہوں کہ آج او آئي سي کے اراکين کي تعداد ستاون ہے۔ ان کے خيال ميں يہ ستاون آزاد اورخود مختار مسلمان رياستيں ہيں۔ معاشي، تعليمي ،سماجي غرض ہر لحاظ سے کمزور رياستوں کي تعداد جتني زيادہ ہوگي، ان کي کمزوري اتني ہي زيادہ ہوگي۔
کيا يہ حقيقت نہيں کہ نظرياتي بنيادوں پر معرض وجو دميں آنے والي سب سے بڑي اسلامي رياست پاکستان کو انیس سو اکہتر ميں بھارت اور سوويت يونين نے امريکہ کي تماشہ بين آنکھوں کے سامنے بظاہر بڑے آرام اور سکون سے دو حصوں ميںتقسيم کرديا تھا۔ پاکستانيوں کو شروع شروع ميں تو دکھ تھا۔ آہستہ آہستہ وہ زخم مندمل ہوگئے اورآج کتنے ہيں جن کے دل ميں مشرقي پاکستان کا نام لے کر کوئي ٹيس اٹھتي ہے اورکتنے سينوں سے غم کي ہوک اُٹھتي ہے۔ ہمارا سوال اتنا ہے کہ جنھوںنے گذشتہ کل کو پاکستان کوتقسيم کيا تھا انھيں مزيد کوئي موقع ملے گا تو وہ رحم کريںگے؟ جس کا جي چاہے نام دوست رکھ ليں، تاريخ يہي ہے کہ جو ہم نے بيان کردي ہے۔
ہم صرف پاکستان کا نام کيوں ليں، بات يوں بھي کہي جاسکتي ہے کہ جنھوں نے عالم اسلام کو ستاون نام نہاد آزاد رياستوں ميں تقسيم کيا ہے وہ اسے مزيد ٹکڑے ٹکڑے کرنے سے کيوں چونکيں گے۔ ہم چاہيں تو کبوتر کي طرح آنکھيںبند کرليں ليکن بلي ہرگز غائب نہ ہوگي اورنہ رحم کھائے گي۔ حقيقت يہ ہے کہ امريکہ اوراس کے ساتھي اتنا کچھ واشگاف کہہ چکے ہيں کہ ہميں اپني طرف سے مزيد ايک لفظ اضافے کي ضرورت محسوس نہيں ہوتي۔ آئيےدوہزار چھ ميں شائع ہونے والے اس نقشے پر نظر ڈالتے ہيں جس ميں پاکستان سميت مشرق وسطيٰ کا ايک نيا نقشہ تجويز کيا گيا ہے۔ اسکے ساتھ شائع ہونے والے مضمون کا نام Blood Borders ہے۔
اس نقشے پر نظر ڈالنا ہي کافي ہے بہر حال رالف پيٹرز کے لکھے ہوئے مضمون ميں شامل کيے گئے اس نقشے کے چند نکات ہم ذيل ميں بيان کرتے ہيں۔
1۔ فرہ ،باد غيس اور ہرات کو ايران ميں شامل کرديا گيا ہے۔
2۔ پشتون علاقہ جو اس وقت پاکستان کا حصہ ہے، اسے افغانستان سے ملحق کرديا گيا ہے۔
3۔ نيمروز کو نئي رياست آزاد بلوچستان کا حصہ بناديا گيا ہے۔
4۔ ايراني صوبہ سيستان وبلوچستان آزاد بلوچستان ميں شامل کرديا گيا ہے۔
5۔ کردستان کے نام پر نيا ملک بنايا گيا ہے ، ايراني صوبہ کردستان اس ميں شامل کرديا گيا ہے۔
6۔ اسي طرح عراق اور ترکي کے کرد علاقے بھي اس ميں شامل کرديے گئے ہيں۔
7۔ کشمير کو ايک الگ نيا ملک بنا ديا گيا ہے۔
8۔ عراق کو تين ملکوں ميں تقسيم کرديا گيا ہے۔ ايک حصہ آزد کردستان ميں شامل کيا گيا ہے جبکہ سني عراق اور شيعہ عراق دومستقل آزاد رياستيں بنا دي گئي ہيں۔
9۔ وٹيکن سٹي کي طرزپر مسلمانوں کي مذہبي رياست بنانے کے لئے حرمين شريفين کا علاقہ تجويز کيا گيا ہے جسے سعودي عرب سے الگ کرکے ايک نئي رياست کا درجہ ديا گيا ہے۔
10۔ يمن سے ملحقہ علاقے جہاں شيعہ کي آبادي ہے سعوديہ سے الگ کرکے اسے يمن ميں شامل کيا گيا ہے۔ اس طرح سے سعودي خاندان کے لئے نسبتاً چھوٹي رياست تجويز کي گئي ہے۔
11۔ سعودي رياست کے شمالي علاقے اردن کي رياست ميں شامل کيے گئے ہيں۔ اس طرح سے اردن کي سرحدوں کونئي مقدس رياست سے جوڑ ديا گيا ہے۔
12۔ شام کي کرد آبادي والے علاقے کو کردستان کا حصہ ظاہر کيا گيا ہے۔
13۔ شام کے جنوبي علاقے لبنان ميں شامل کرکے گريٹر لبنان بنايا گيا ہے۔
14۔ ايران اور چين کا زميني راستہ پاکستان سے کاٹ ديا گيا ہے۔
حال ہي ميں پاکستان کا جو نيا مجوزہ نقشہ نئے سرے سے امريکي وزارتِ دفاع کے حوالے سے سامنے آيا ہے وہ اسي نقشے کے مطابق ہے۔ اس نقشے کے مطابق کبھي عراق کے نام سے نيا نقشہ شائع کرديا جاتا ہے جس ميں کردستان، سني عراق اور شيعہ عراق کے نام سے تين ملک دکھائے جاتے ہيں ۔کبھي ايران کا نيا نقشہ شائع کرديا جاتا ہے اورکبھي افغانستان وغيرہ کا۔ ہم يہاںجملہ معترضہ کے طور پر يہ عرض کرتے چليں کہ بلوچ لبريشن آرمي، طلال بگٹي کے تازہ بيانات اوردھمکياں، راجستھان کي سرحد پر بھارتي افواج کااجتماع ان سب باتوں کو کوئي سادہ انديش ہي جدا جدا واقعات کے طور پر ديکھ سکتا ہے، ہم تو اسے ايک مجموعي پلان کے حصے کے طور پر ديکھتے ہيں اگرچہ کوئي ايک فرد يا گروہ شعوري طور پر اس پلان کا حصہ نہ ہو۔
ہم يہاں پر يہ وضاحت کرديں کہ دوہزارچھ ميں شائع ہونے والا نقشہ بھي کوئي نيا نہيں ہے بلکہ مغربي استعماري فکر کے ترجمان حلقوں اوردانشوروں کي طرف سے قبل ازيں بھي گاہے گاہے ايسي باتيں سامنے آتي رہي ہيں۔فيوري آف نيشن کے مصنف نے يہ بات لکھي تھي کہ مسلم قومي رياستيں ابھي ايک عبوري دورسے گزر رہي ہيں انھيں مزيد چھوٹي نسلي رياستوں ميں تقسيم ہوتاہے اس کتاب کے مطابق عالم اسلام کي تقسيم ایک سو نوے نسلي رياستوں پر جا کر ختم ہوگي۔ پہلي خليجي جنگ (1990-91) کے دوران ايک جرمن جريدے نے بھي عالم اسلام کا ايک نقشہ چھايا تھا جسے برنارڈ لوئيس پلان قرار ديا گيا ہے۔ معروف اسلامي مفکراور ہمارے دوست جناب محمد اسلم دراني نے اپنے ايک مضمون ميں ان منصوبوں کا جائزہ ليا ہے۔ برنارڈ لوئيس پلان دوہزارچھ ميں شائع ہونے والے بلڈ بارڈر زسے کوئي زيادہ مختلف نہيں ہے۔
يہ ساري صورت حال دنيا بھر کے مسلمان عوام کے لئے يقيني طور پر باعث تشويش ہے ۔ عجيب بات يہ ہے کہ دور حاضر ميں مسلمان عوام اپنے دوست اوردشمن کا مجموعي طور پرايک درست شعور رکھتے ہيں ۔ وہ خوب سمجھتے ہيں کہ دنيا ميں ان کا دوست کون ہے اور دشمن کون ہے۔ عام طور پر مسلمان اپنے زوال اور پس ماندگي کے اسباب کا بھي صحيح تجزيہ کرتے ہيں۔ دوسري طرف مسلمان حکمران ہيں۔ ايسا نہيں ہے کہ جو بات عوام سمجھتے ہيں وہ خواص نہيں سمجھتے۔ وہ بھي جانتے ہيں کہ عالمي حقائق کيا ہيں۔ کوئي تجاہل عارفانہ کرے تو دوسري بات ہے۔ پھر مسئلہ کيا ہے؟ بہت سے مسلمان اورغيرمسلم تجزيہ کاراس امر پر متفق ہيں کہ دنيا ميں بالعموم مسلمان حکمران طبقے مسلمان عوام کے افکار واحساسات کے ترجمان نہيں ہيں۔ کيا اُن کي کيفيت امام حسينٴ کے زمانے کے اُن کوفيوں کي سي ہے جن کے بارے ميں کہا گيا تھا کہ اُن کے دل تو آپ کے ساتھ ہيں ليکن تلواريں ابن زياد کے ساتھ ہيں؟ اس کي بہت سي وجوہات بيان کي جاسکتي ہيں۔ کوئي عالمي معاہدوں کو ان کے پاؤں کي زنجير کہہ سکتا ہے ، کوئي معاشي کمزوري اورناہمواري کي دليل پيش کرسکتا ہے، کوئي فوجي اوردفاعي وسائل کي کمي کو عذر کے طور پر ذکر کر سکتا ہے اورکوئي دوستوں کي کمي کا بہانہ پيش کرسکتا ہے۔ ہمارے خيال ميں ان سب باتوں ميں جزوي صداقت پائي جاتي ہے اوراگر ان حالات سے نکلنے کي کوئي سبيل نہيں تو ياد رکھيے استعماري طاقتيں اپنے منصوبے کے مطابق رفتہ رفتہ قدم آگے بڑھاتي چلي جائيں گي اورمسلمان رياستوں کواپني مرضي کے مزيد ٹکڑوں ميں تقسيم کرتي چلي جائيں گي۔
ايسے ميں پھر يہ سوال ابھرتا ہے کہ کيا اس’’ جرم ضعيفي‘‘سے توبہ کا بھي کوئي راستہ ہے؟ کيا بے بسي کے درد کا کوئي درمان ہے؟ ہم کہيں گے کہ ہاں ہے ۔شرط يہ ہے کہ کوئي قائل اور مائل ہوجائے۔ جب تک’’تن بہ تقدير‘‘ کي کيفيت رہے گي ہمارے غم کاچارہ نہيں ہوپائے گا۔
آئيے پہلے يہ يقين کريں کہ اس کائنات کا کوئي خدا ہے جس کے اپنے مقاصد اورارادے ہيں۔ امريکہ اس دنيا کا خدا نہيں ہيں۔’’کن فيکون‘‘ کي طاقت کا مظہر امريکہ نہيں ہے۔ اگر کوئي کہے کہ يہ کتابي باتيں ہيں تو ہم کہيں گے نہيں، يہ کتابي باتيں نہيںحقيقي باتيں ہيں۔ ہم سامنے کي چند مثاليں عرض کرتے ہيں:
کيا عراق ميں اس وقت جو صورت حال ہے وہ سب امريکہ کي مرضي کے عين مطابق ہے؟ کياامريکہ چاہتا تھا کہ وہ عراق سے اپني افواج تين سال کے اندراندرنکالنے کے معاہدے پردستخط کردے؟ ہرگز نہيں۔ ليکن امريکہ کے علي الرغم يہ معاہدہ طے پا گياہے۔ ممکن ہے بعض احباب اس معاہدے کي بعض کمزورشقوں کا ذکر کريں۔ نظرياتي طورپر ہم بھي اس سے اتفاق کريں گے۔ ہم تو اس کے مجموعي مثبت پہلو کي نشاندہي کررہے ہيں۔ اسي طرح کيا امريکہ پسند کرتا ہے کہ عراق ميں برسراقتدار آنے والي حکومت کے ايران کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں ليکن ايسا ہوگيا ہے۔
اسرائيل کو فوجي لحاظ سے دنيا کي چوتھي بڑي طاقت سمجھا جاتا ہے ليکن کيا يہ حقيقت نہيں کہ اسے حزب اللہ کے چار ہزار گوريلا سپاہيوں نے تاريخ کي عبرت ناک شکست سے دوچار کرديا ہے اورحزب اللہ کي فتح کے اثرات اتنے زيادہ ہيں کہ ابھي تک عرب دنيا پر محسوس کيے جاسکتے ہيں۔
پي ايل او پر امريکي اوراسرائيلي مرضي کي قيادت مسلط کرنے کے بعد امريکہ اوراسرائيل مطمئن تھے کہ فلسطين کے نام سے ايک نام نہاد کمزور سي رياست بنا ديں گے جواسرائيل کے احکام اورمفادات کے تابع رہے گي اوراس کے ذريعے فلسطيني عوام کوکنٹرول اورمطمئن کيا جاسکے گا ليکن حماس کے ظہور نے ان کے خواب چکنا چور کرديے ہيں۔ حماس کي قيادت کوپے درپے قتل کرنے، غزہ کا طويل محاصرہ کرنے اوررات دن نہتے فلسطينيوں کے بے رحمانہ قتل عام کے باوجود اسرائيل حماس کي قيادت کو ابھي تک گھٹنے ٹيکنے پرآمادہ نہيں کرسکا۔
ايران کے خلاف امريکہ اوراس کے حواري گذشتہ تين دہائيوں سے تمام تر حربے آزما چکے ہيں ليکن اسے جھکنے پرآمادہ نہيں کرسکے ۔ يہاں تک کہ امريکي قيادت بار ہا ايران کي قيادت کو تبديل کرنے کے اپنے منصوبے کا اعلان کرچکي ہے ليکن اپني ناکامي کے بعد آخر کار چند روز قبل امريکي وزير دفاع رابرٹ گيٹس نے اعلان کياہے کہ وہ ايراني قيادت ہٹانے کي کوشش نہيں کريںگے۔ ايران کے اسلامي انقلاب کے باغيوں کا ايک بريگيڈجو صدام حسين نے عراق کے اندر بنا رکھا تھا اب اُسے عراق ميں پناہ دينے والا کوئي نہيں رہا۔ اسے عراقي حکومت نے ملک چھوڑنے کا حکم دے ديا ہے۔
عالم اسلام ہي سے نہيں ہم عالم اسلام سے باہر کي دنيا بھي بہت سي مثاليں ذکر کرسکتے ہيں جو اس امر کي شہادت ديتي ہيں کہ دنيا ميں سب کچھ استعماري خواہشوں کے مطابق نہيں ہوتا۔ خود امريکي عوام نے بش کي جارحانہ پاليسوں کو مسترد کرديا ہے۔ يورپ کے عوام نے جنگجويانہ روش کو ٹھکرا ديا ہے۔ سرمايہ داري نظام جواستعماري پاليسيوں کي ناپاک اورخون آشام جڑ ہے خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ دنيا ميں بڑے پيمانے پر تبديلي کي ہوا کسي وقت اورکہيں سے بھي چل سکتي ہے۔
مسلمان حکمران خدا پر بھروسہ کريں، اپنے عوام پراعتماد کريں، آپس ميں اتحاد کريں اورظلم وسامراج کو ’’نہ‘‘ کہنے کا حوصلہ کريں اورپھر ديکھيں کيا نتيجہ نکلتا ہے۔ حکيم الامت علامہ اقبال تو پہلے ہي پيش گوئي فرما چکے ہيں:

فضائے بدر پيدا کر فرشتے تيري نصرت کو
اتر سکتے ہيں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھي