‏نعیم صدیقی کی حسبِ حال نظم

تاریخ نے پوچھا اے لوگو ،
یہ دنیا کس کی دنیا ہے

شاہی نے کہا یہ میری ہے،
اور دنیا نے یہ مان لیا
پھر تخت بچھے ایوان سجے،
گھڑیال بجے دربار لگے
تلوار چلی اور خون بہے،
انسان لڑے انسان مرے
دنیا نے با لآ خر شاہی کو،
پہچان لیا پہچان لیا

تاریخ نے پوچھا۔۔۔۔ پھر لوگو،
یہ دنیا کس کی دنیا ہے
دولت نے کہا یہ میری ہے،
اور دنیا نے یہ مان لیا
پھر بینک کھلے بازار جمے،
بازار جمے بیوپار بڑھے
انسان لٹے انسان بکے،
آرام اڑے سب چیخ اٹھے
دنیا نے آخر دولت کو،
پہچان لیا پہچان لیا

تاریخ نے پوچھا…‏…پھر لوگو،
یہ دنیا کس کی دنیا ہے

محنت نے کہا یہ میری ہے،
اور دنیا نے یہ مان لیا
پھر روح دبی پھر پیٹ بڑھے،
افکار سڑے کردار گرے
ایمان لٹے اخلاق جلے،
انسان نرے حیوان بنے
دنیا نے آخر محنت کو،
پہچان لیا پہچان لیا

تاریخ نے پوچھا پھر لوگو،
یہ دنیا کس کی دنیا ہے

مومن نے کہا اللہ کی ہے،
اور دنیا نے یہ مان لیا
پھر قلب و نظر کی صبح ہوی
اک نور کی لے سی پھوٹ بہی
اک اک خودی کی آنکھ کھلی،
فطرت کی صدا پھر گونج اٹھی
دنیا نے آخر آقا کو،
پہچان لیا پہچان لیا

نعیم صدیقی۔۔۔