نظر ٹھہرتی نہیں ہے رخ آفتاب ہی ہے
نظر ٹھہرتی نہیں ہے رخ آفتاب ہی ہے
یقین کر! تری بے پردگی حجاب ہی ہے
تمہارا ساتھ، اک اعزازی عہدہ ہے، جس میں
کچھ اختیار نہیں صرف رعب داب ہی ہے
ہماری اونگھ کبھی نیند تک گئی ہی نہیں
سو خواب دیکھنا تاحال ایک خواب ہی ہے
قسم خدا کی! بڑی دیر کچھ نہیں دِکھتا
بہ غور اُس کی طرف دیکھنا، عذاب ہی ہے
میں کچھ بھی پوچھے بغیر اُٹھ کے آگیا واپس
سمجھ گیا تھا اُسے دیکھ کر، جواب ہی ہے!
مرا بدن بھی کم و بیش ہے زمیں کی طرح
کہ دو تہائی، کم از کم، تو زیرِ آب ہی ہے
خراب رستے پہ تختی دِکھی تو رک کے پڑھی
لکھا تھا "رستہ یہی ہے مگر خراب ہی ہے"
ہم ایک ہاتھ کی دوری پہ ساتھ پھرتے ہیں
وہ دسترس میں نہیں، صرف دستیاب ہی ہے
تری طلب اگر آسودگی ہے، رب راکھا!
ہمارے پاس تو، لے دے کے، اضطراب ہی ہے
Bookmarks