تو اتنا خوش نہ ہو میرا دل توڑ کر


ہاتھوں پہ رکھ کر خاک سا اڑا دوں تجھ کو
جی تو کرتا ہے میں بھی بھلا دوں تجھ کو


تو اتنا خوش نہ ہو میرا دل توڑ کر

تیرے ساتھ بھی یہی ہوگا میں بتا دوں تجھ کو


اک حسرت ہے کہ تو مجھے پھر سے ملے

لیکن اب کی بار میں دغا دوں تجھ کو


پہلے دل دیا اور پھر جاں بھی دے دی

میں اس سے زیادہ اور کیا دوں تجھ کو


تو یقیناً تھک جائے گا وار کرتے کرتے

میرے قاتل ٹھہر، میں آسرا دوں تجھ کو


مجھ سے فلکی ستاروں کی فرمائش نہ کر

وہ مانگ کہ جو میں لا دوں تجھ کو


مجھ میں مسیحائی کا فن نہیں ہے ورنہ

تو پتھر بھی تو پگھلا دوں تجھ کو


بہتر ہوگا تو بھی تحفے موڑ دے واپس

میں بھی سارے خط بھجوا دوں تجھ کو


رات پھر ایک نئی غزل کہی ہے میں نے

ہے دکھی،کہو تو سنا دوں تجھ کو