بچے قوم کا وہ قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں جو قوم کواُنکی دی گئی خدمات کی صورت میں واپس ملتا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ کسی بھی معاشرےکی ترقی کا دارومدار اِنکے اچھے برے اعمال پر ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ لہذٰاایک مکمل اور بہترین معاشرے کو تشکیل دینے کیلئے اِنکی مثبت سطح پر تربیت ہونا بہت ضروری ہے۔ اِنکی سوچ اورعمل مثبت ہوگا تو یہ ملک کی ترقی میں اہم کرداراَدا کر سکیں، ملک کو کچھ دے سکیں گے۔
گو ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے لیکن اُسکی تربیت میں والد کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ماں دیگرمعاملات کیساتھ بچے کے تعلیم و تربیت کے معاملات کو تنہا ہینڈل نہیں کر سکتی۔اچھی پرورش کیلئےاُسکو شوہر کے تعاون کی ضرورت بہرحال ہوتی ہے۔چونکہ بچے کا زیادہ تروقت گھر پر گزرتا ہے اِسلئے وہ باہر سے زیادہ گھر سے سیکھتا ہے۔ اُس میں اچھی بری عادت کے پیدا ہونے اوراُسکی شخصیت کو بنانے اور بگاڑنے میں گھرکا ماحول اور والدین کا کردار اہم ہے ۔ وہ جس طرح آپس میں بات کرتے ہیں،جسطرح ری ایکٹ کرتے ہیں، بی ہیو کرتے ہیں اور جس انداز میں اپنے بڑوں سے پیش آتے ہیں، بچہ سب دیکھ رہا ہوتا ہے۔ یہ سب اُس کی میموری میں محفوظ ہورہا ہوتاہے۔ چونکہ بچوں کی چھٹی حِس اور سینس آف آبزرویشن (حِسِ مشاہدہ) کافی تیز ہوتی ہےاِسلئےاُنکا ذہن اچھی بری باتوں کااثربہت جلد لیتا ہے اور یہ اثر اکثردیرپا ہوتا ہے ۔ مختصراً الفاظ کا چناؤاور ایکٹ بہت معنی رکھتا ہے اِسلئے کہا جاتا ہے کہ بولنے سے پہلے سوچئے کہ کہاں کب کیا بولنا ہےکیونکہ یہ وہ چیز ہے جو آپکا بچہ آپکو اور اِس معاشرے کو اِن ریٹرن دے گا ۔
میاں بیوی میں بحث و تکرار چلتی رہتی ہے لیکن بچوں کے سامنے لڑائی جھگڑاے سے گریز کریں، بیوی پر چلانے سے گریز کریں۔آپس کی تکرارکمرے تک محدود رکھیں۔ جھگڑا، بلا وجہ کی بحث وتکرارآپکے بچے کی شخصیت پر منفی اثرات چھوڑ تی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ وہ مرد جوبچوں کی موجودگی کی پرواہ کئے بغیر اپنی بیوی سے لڑتے ہیں، اُن پر چلاتے ہیں ، غصہ کرتے ہیں اُنکی اولاد پر والدہ کا زور نہیں چلتاکیونکہ بچوں کی پڑھائی لکھائی سے تربیت تک کے ستر فیصد معاملات ماں کے سپردہوتے ہیں۔ جب آپ ہی اپنی بیوی کی عزت نہیں کریں گے، اولاد کے سامنے اِسطرح کا رویہ رکھیں گےتو اولاد سے کیا توقع رکھیں گے کہ وہ کیا سلوک کرے؟اگر بیٹا ہے تو ممکن ہے وہ بھی اُسی لہجے میں اپنی ماں سے بات کرے اورشادی کے بعد بیوی سے جیسا کہ اپنے والد کو دیکھتے آیا۔ اگر بیٹی ہے تو اُسکے دِل میں مرد کیلئے منفی سوچیں جنم لے سکتی ہیں۔ نیز والدین کے اِس رویے سے اُنکی شخصیت نہ صرف ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے بلکہ اُنکی زندگی میں اِک خلا رہ جاتا ہے جسکو کسی بھی طرح نہیں بھرا جا سکتا۔
ایک بات کئی گھرانوں میں بہت عام ہے۔ اگر بچے کوکسی بات پرڈانٹ پڑ رہی ہو توماں یا باپ یا گھر کا کوئی فرد بول پڑتا ہے کہ کوئی بات نہیں بچہ ہے، بڑا ہوکرایسا نہیں کہے گا یا کرے گا وغیرہ۔ یہ بہت غلط ہے۔ اِس سے بچے کو نہ صرف شہہ ملتی ہے بلکہ وہ دوبارہ وہی کام کرتا ہے۔لہذٰااگر ماں کسی بات پر بچے کو ڈانٹ رہی ہوتو باپ یا کسی عزیزکو مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور باپ ایسا کر رہا ہو تو ماں کوخاموش رہنا چاہیے تاکہ بچے کی حوصلہ شکنی ہو کہ اُس نے ٹھیک نہیں کیااوراُسکو جائز بات پرہی ٹوکا جا رہا ہے۔ سب سے اہم بات بچے کو سب کی موجودگی میں ہرگز نہ ڈانٹا جائے نہ غلط بات پر باز پرس کی جائے کہ وہ شرمندہ ہو۔ اُسکو الگ سے لیجا کرسمجھایا جائےیہی بہتر طریقہ ہے۔
سب سے اہم بات جس کا دارومدار ملک اور معاشرے کی کامیابی پر ہے ، اُنکی خود کی ترقی پر ہےوہ ہے اُنکا رویہ، اُنکی سوچ، اُنکا عمل جو گھر سے ماں باپ کی میوچل انڈراسٹینڈنگ سے ڈیویلپ ہوتا ہے۔ بچے کو اچھا اِنسان اوراچھاشہری بنانے میں گھر کا ماحول اور والدین کاآپس میں رویہ مثبت اور دوستانہ ہونا چاہیے۔ تمام مسئلے مسائل ایک سائیڈ پر رکھ کر اُنکے سامنے آپس کا رویہ اچھا رکھیں تاکہ اُنکا ننھا ذہن اُلجھے نہ اور نہ ہی کچھ ایسا ویسا نہ سوچے جسکا نتیجہ بھی اچھا نہ ہو۔منفی سوچیں کبھی بھی اچھا اِنسان نہیں بننے دیتی۔ کیونکہ جب ذہن میں منفی باتیں بیٹھ جائیں توایک اِنسان چاہتے ہوئے بھی اچھا اور مثبت نہیں سوچ سکتانہ ہی اچھا کر سکتا ہے۔
اپنی اولاد کی بھلائی کی خاطر، اُسکو مکمل و مضبوط اِنسان اور شہری بنانے کیلئے بحث وتکرارکرنے سے پہلےصرف ایک بار سوچیں کہ کہیں آپ کچھ غلط تو نہیں کر رہے؟ جواب خود ہی مل جائے گا۔
زارا رضوان