Results 1 to 5 of 5

Thread: احساسِ محرومی - ڈالڈا کا دسترخوان - مئی 2017

  1. #1
    Zaara's Avatar
    Zaara is offline Advance Member
    Last Online
    26th December 2022 @ 06:33 PM
    Join Date
    24 Jun 2007
    Age
    36
    Gender
    Female
    Posts
    10,423
    Threads
    728
    Credits
    611
    Thanked
    1484

    Default احساسِ محرومی - ڈالڈا کا دسترخوان - مئی 2017

    احساسِ محرومی
    ڈالڈا کا دسترخوان - مئی 2017

    احساسِ محرومی یعنی
    sense of deprivation
    ایک ایسا احساس ہے جو اِنسا ن کی شخصیت کو گُھن کی طرح چاٹ جاتا ہے، مسخ کردیتاہے ،خود اعتمادی بالکل ختم ہو جاتی ہے۔یہ ایک ایسی بیماری ہے جو اندر ہی اندر اِنسان کو کھوکھلا کرتی رہتی ہے۔ کسی بھی شخص میں یہ احساس قدرتی طور پر نہیں پایا جاتا بلکہ اِس کے پیچھے کچھ عناصر، عوامل اور وجوہات ہوتی ہیں ۔ احساسِ کمتری پر قابو پانا آسان ہے مگر محرومی کے احساس پر قابو پانے کیلئے کافی وقت چاہیے، صبر چاہیے ،ہمت چاہیے، حوصلہ چاہیے خود سے لڑنے کا، عزم چاہیے اپنے عزیز کو اِس محرومی کے اثر سے نکالنے کا۔
    بچے چونکہ حساس ہوتے ہیں اِسلئےاُن میں احساسِ محرومی زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔دراصل یہ ایسی عمر ہوتی ہے جس میں وہ بہت کچھ نیا دیکھتاہے، سیکھتا ہے۔ مشاہدے کا احساس بڑھ جاتا ہے اِسلئے لوگوں سے مل کر، اُن کو فیس کرکےبچہ بہت کچھ محسوس کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ لہذٰا ایسے بچے جو اِس محرومی کا شکار ہیں اُنکو اِس فیز سے نکالنا والدین کی ذمہ داری ہے۔
    اِس پر قابو پانے کیلئے وجوہات کا علم ہونا ضروری ہےکہ اِس کے پیچھے کون کونسے عوامل وعناصر ہیں؟ بچے کے کس فعل و عمل پتہ چلے کہ بچہ احساسِ محرومی کا شکار ہے؟ کس قسم کے بچے اِس اثر کو جلد لیتے ہیں؟ اِس بات کو بھی مدِ نظر رکھنا پڑتا ہے کہ بچے کی سمجھ کی حد کہا تک ہے ۔ سمجھدار، ذہین و عقلمند بچوں کوسمجھانا زیادہ آسان ہے بہ نسبت ایوریج سطح کے بچوں کی۔
    ذیل میں کچھ وجوہات ہیں؛
    جسمانی کمزوری:
    ایسا بچہ جو جسمانی طور پر کمزور ہے یااُس میں نقص ہے، وہ دُوسرے بچوں کو مکمل و صحت مند دیکھ کر اَپ سیٹ ہو جاتا ہے۔ اُسکا اپ سیٹ ہونافطری ہے ۔ اپ سیٹنگ کی وجہ وہ کمزوری ہے جو واقعی ہی اُس میں موجود ہے۔ وہ خود کودُوسروں سے کمتر سمجھنے لگتا ہے۔ ایک ہی سوچ اُسکے ننھے دماغ میں گردش کرتی ہے کہ اُس میں یہ نقص کیوں؟ کمزوری کیوں؟ کیوں وہ دوسروں کی طرح مکمل نہیں۔ اِس احساس کےزیرِ اثر مقابل کے سامنے اُسکی خود اعتمادی ماند پڑ جاتی ہے۔
    بچےکو باور کرائیں کہ اِس میں اُسکا یا کسی کاعمل دخل نہیں ۔ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے اوربغیر وجہ اللہ کسی کو پیدا نہیں کرتا۔۔ اُسکوسمجھائیں کہ کسطرح کمزوری طاقت بن سکتی ہے۔ اُس کو ایسی ایکٹیویٹیز مہیا کی جائیں جس سے اُس کی توجہ بٹ جائے۔۔ ایسی فیلڈز کی طرف راغب کر دیا جائے جس میں اُسکی دِلچسپی ہو۔ ۔ مکمل توجہ کیساتھ برین واشنگ کریں۔ یاد رکھیں یہ بہت ہمت اور حوصلے کا کام ہے۔
    سماعت کی کمزوری:
    اگر بچہ اونچی آواز میں بات کرتا ہے، ٹی وی باآواز بلند دیکھتا ہے، حاضر جواب نہیں ہے یا آپکی بات کا جواب فوراً نہیں دیتا تو سمجھ لیں اُسکی سماعت کمزور ہے۔ اُسکے خود کے کانوں میں پہنچنی والی آواز کاسیکوئینس کم ہوتا ہے اور آواز کم سنائی دینے کی وجہ سے وہ اونچا بولتا ہے۔ حتیٰ کہ لوسیکوئینس کی وجہ سے وہ خودنہیں جان پاتا کہ کس قدر لاؤڈ بول رہا ہے ۔ تاخیر سے جواب دینے کی وجہ بات کا اُس کے برین سے کانوں تک دیر سے پہنچنا ہے اور بات کا جواب دینے کیلئے اُسکو بات کا فوری سمجھ میں آنا ضروری ہے ۔
    بار بار ایسا ہونے سے بچہ سمجھ جاتا ہے کہ کوئک رسپانس نہ کرنے کی صورت میں سامنے والا زچ ہو جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ بات کرنے سے کترانے لگتا ہے، ، خود اعتمادی ہوا ہو جاتی ہے ، بات کرتے وقت جھجھک آڑے آ جاتی ہے اوریہ جھجھک ہی در حقیقت احساسِ محرومی ہے۔ ۔
    کسی اچھے ای این ٹی اسپیشلسٹ سے رجوع کرکے کان کا معائنہ کروایا جائے۔ سماعت کم ہونے کی صورت میں آلہ سماعت استعمال کرنا ہوگا۔ عین ممکن ہے بچے کیلئے یہ صورتحال ناقابلِ اِختیار اور مشکل ہو لیکن بحثیت والدین بچے کو یہ بات سمجھنا نا ضروری ہے کہ آلے کا استعمال معیوب نہیں۔ ایسے کئی بچے ہیں جو آلہ سماعت استعمال کر رہے ہیں۔ اِس سے اُنکی روٹین میں کوئی فرق نہیں پڑے گا نہ کوئی مذاق بنائے گا وغیرہ وغیرہ۔۔
    بصارت کی کمزوری:
    بچہ ٹی وی قریب سے دیکھتا ہو، کتاب نزدیک کرکے پڑھتا ہو، لکھتے ہوئے نوٹ بک کو قریب کرلے یا دُور کی چیزوں پر فوکس کرتا ہو تو جان لیں اُسکی بصارت کمزور ہو سکتی ہے۔
    فوراً آنکھوں کے ڈاکٹر (آئی اسپیشلسٹ/آپتھلمولوجسٹ) کو دِکھائیں تاکہ تشخیص کرکے تدارک کیا جا سکے۔ نگاہ کمزور ہونے کی صورت میں نظر کی عینک تجویز کی جائے گی۔آنکھ کے پردوں کا مسئلہ ہویا کوئی اور مسئلہ ہونے کی صورت میں ٹریٹمنٹ فرق ہوگا۔عینک لگنے کی صورت ہو یا ٹریٹمنٹ بچے کو حوصلہ دینا، اُسکو سمجھانا، اُسکو خود اعتمادی کی ترغیب دیناوالدین کا فرض ہے۔
    اسٹیٹس کا فرق:
    احساسِ محرومی کا شکار زیادہ تر مڈل کلاس یا لوئر کلاس بچے ہوتے ہیں۔ کسی کلاس فیلو ، سکول فیلو یا دوست کی امارت کو دیکھ کر بچہ ذہنی طور پر متاثر ہوجاتا ہے ۔اپنی چیز ہلکی دیکھ کر، مقابل کی چیز کے معیار کےمطابق نہ دیکھ کراُسکا احساسِ محرومی بڑھ جاتا ہے۔ وہ ویسی چیز لینا چاہتا ہے جو اُس نے کسی کے پاس دیکھی ہو ۔ انجانے میں وہ اُسکا سٹائل، اُسکی گفتگو، اُسکا لہجہ اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی بات پر اڑ کر اپنی بات منوانے کی ضد کرتا ہے۔ ایسی چیزوں کا مطالبہ کرتا ہے جو والدین کی پہنچ سے باہر ہوتی ہے یا ہو سکتی ہے۔ اُس میں اِتنی سمجھ نہیں ہوتی کہ جان پائے آیا اُسکے والدین افورڈ کر سکتے ہیں یا نہیں
    بچہ اگر روٹین سے ہٹ کر عمل کرے تو فوراً توجہ کیجئے۔ باتوں باتوں میں اُس سے جانئے کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ وہ کسی سے متاثر تو نہیں؟ اگر ہے تو کس سے اور کس وجہ سے؟ وہ ذہنی الجھن و کشمکش کا شکار تو نہیں؟ اگر کوئی الجھن ہے تو اُسکو کہیں کہ آپ کو بتائے۔۔ اُسکو سمجھائیں کہ والدین ہی بچے کے بہترین دوست ہوتے ہیں اپنی ہر پریشانی، الجھن وہ والدین سے شئیر کریں۔
    گھریلو ناچاقی:
    والدین کی آپس کی چپقلش، ضد، بحث بچے کےننھے ذہن پر برے اثرات مرتب کرتی ہے یا یوں کہہ لیں والدین کی ناچاقی بچوں کی شخصیت پر برے اثرات چھوڑتی ہے ۔ اُنکی شخصیت ادھوری اور نا مکمل رہ جاتی ہے۔ وہ ڈپریس رہتے ہیں، ذہنی کشمکش کا شکار رہتے ہیں، اُلجھے رہتے ہیں، لوگوں کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں، دوستوں سے دور ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اُنکے اندر ایک عجیب سی جنگ چھڑی ہوتی ہے جسکا سدِ باب کوئی نہیں کر سکتاسوائے والدین کے۔
    لہذٰا والدین بچوں کے سامنے جھگڑنے سے گریز کریں، بحث و مباحثہ نہ کریں، ذومعنی و طنزیہ باتوں سے اِجتناب کریں۔دونوں کو سوچنا چاہیے کہ اُنکی وجہ سے بچے کی زندگی پر اثر پڑ رہاہے ، اُسکامعصوم ذہن اِن باتوں کا برا اثر لے رہا ہے۔ اپنے رویے کو بہتر بناکر،۔ لڑائی جھگڑے سے گریز کرکےدونوں کو مل کر بچے کو نارمل کرنے کیلئے کوشش کرنی چاہیے۔
    یاد رکھیں بچے قوم کے معمار ہیں لیکن اُنکے معمار والدین ہیں۔ وہ اپنی قوم کو وہی کچھ دیں گے جو کچھ اپنے والدین سے لیں گے۔۔ جیسا اصل ہوگا ویسا سود۔۔ لہذٰا اُنکی مثبت سطح پر تربیت والدین کا فرض ہے۔ احساسِ کمتری و احساسِ محرومی جیسی بیماریوں سے نکالنا والدین کی ذمہ داری ہے۔۔
    زارا رضوان

  2. #2
    BIG BROTHER's Avatar
    BIG BROTHER is offline Super Moderator
    Last Online
    Yesterday @ 10:30 PM
    Join Date
    18 May 2009
    Location
    Karachi
    Gender
    Male
    Posts
    16,481
    Threads
    150
    Credits
    18,333
    Thanked
    721

    Default

    bohat achi sharing hai

  3. #3
    Zaara's Avatar
    Zaara is offline Advance Member
    Last Online
    26th December 2022 @ 06:33 PM
    Join Date
    24 Jun 2007
    Age
    36
    Gender
    Female
    Posts
    10,423
    Threads
    728
    Credits
    611
    Thanked
    1484

    Default

    Quote BIG BROTHER said: View Post
    bohat achi sharing hai
    جزاک اللہ خیرا

  4. #4
    BIG BROTHER's Avatar
    BIG BROTHER is offline Super Moderator
    Last Online
    Yesterday @ 10:30 PM
    Join Date
    18 May 2009
    Location
    Karachi
    Gender
    Male
    Posts
    16,481
    Threads
    150
    Credits
    18,333
    Thanked
    721

    Default

    مزید اسی طرح کی پوسٹ کا انتطار رہے گا

  5. #5
    Join Date
    16 Aug 2009
    Location
    Makkah , Saudia
    Gender
    Male
    Posts
    29,910
    Threads
    482
    Credits
    148,896
    Thanked
    970

    Default

    Quote Zaara said: View Post
    احساسِ محرومی
    ڈالڈا کا دسترخوان - مئی 2017

    احساسِ محرومی یعنی
    sense of deprivation
    ایک ایسا احساس ہے جو اِنسا ن کی شخصیت کو گُھن کی طرح چاٹ جاتا ہے، مسخ کردیتاہے ،خود اعتمادی بالکل ختم ہو جاتی ہے۔یہ ایک ایسی بیماری ہے جو اندر ہی اندر اِنسان کو کھوکھلا کرتی رہتی ہے۔ کسی بھی شخص میں یہ احساس قدرتی طور پر نہیں پایا جاتا بلکہ اِس کے پیچھے کچھ عناصر، عوامل اور وجوہات ہوتی ہیں ۔ احساسِ کمتری پر قابو پانا آسان ہے مگر محرومی کے احساس پر قابو پانے کیلئے کافی وقت چاہیے، صبر چاہیے ،ہمت چاہیے، حوصلہ چاہیے خود سے لڑنے کا، عزم چاہیے اپنے عزیز کو اِس محرومی کے اثر سے نکالنے کا۔
    بچے چونکہ حساس ہوتے ہیں اِسلئےاُن میں احساسِ محرومی زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔دراصل یہ ایسی عمر ہوتی ہے جس میں وہ بہت کچھ نیا دیکھتاہے، سیکھتا ہے۔ مشاہدے کا احساس بڑھ جاتا ہے اِسلئے لوگوں سے مل کر، اُن کو فیس کرکےبچہ بہت کچھ محسوس کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ لہذٰا ایسے بچے جو اِس محرومی کا شکار ہیں اُنکو اِس فیز سے نکالنا والدین کی ذمہ داری ہے۔
    اِس پر قابو پانے کیلئے وجوہات کا علم ہونا ضروری ہےکہ اِس کے پیچھے کون کونسے عوامل وعناصر ہیں؟ بچے کے کس فعل و عمل پتہ چلے کہ بچہ احساسِ محرومی کا شکار ہے؟ کس قسم کے بچے اِس اثر کو جلد لیتے ہیں؟ اِس بات کو بھی مدِ نظر رکھنا پڑتا ہے کہ بچے کی سمجھ کی حد کہا تک ہے ۔ سمجھدار، ذہین و عقلمند بچوں کوسمجھانا زیادہ آسان ہے بہ نسبت ایوریج سطح کے بچوں کی۔
    ذیل میں کچھ وجوہات ہیں؛
    جسمانی کمزوری:
    ایسا بچہ جو جسمانی طور پر کمزور ہے یااُس میں نقص ہے، وہ دُوسرے بچوں کو مکمل و صحت مند دیکھ کر اَپ سیٹ ہو جاتا ہے۔ اُسکا اپ سیٹ ہونافطری ہے ۔ اپ سیٹنگ کی وجہ وہ کمزوری ہے جو واقعی ہی اُس میں موجود ہے۔ وہ خود کودُوسروں سے کمتر سمجھنے لگتا ہے۔ ایک ہی سوچ اُسکے ننھے دماغ میں گردش کرتی ہے کہ اُس میں یہ نقص کیوں؟ کمزوری کیوں؟ کیوں وہ دوسروں کی طرح مکمل نہیں۔ اِس احساس کےزیرِ اثر مقابل کے سامنے اُسکی خود اعتمادی ماند پڑ جاتی ہے۔
    بچےکو باور کرائیں کہ اِس میں اُسکا یا کسی کاعمل دخل نہیں ۔ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے اوربغیر وجہ اللہ کسی کو پیدا نہیں کرتا۔۔ اُسکوسمجھائیں کہ کسطرح کمزوری طاقت بن سکتی ہے۔ اُس کو ایسی ایکٹیویٹیز مہیا کی جائیں جس سے اُس کی توجہ بٹ جائے۔۔ ایسی فیلڈز کی طرف راغب کر دیا جائے جس میں اُسکی دِلچسپی ہو۔ ۔ مکمل توجہ کیساتھ برین واشنگ کریں۔ یاد رکھیں یہ بہت ہمت اور حوصلے کا کام ہے۔
    سماعت کی کمزوری:
    اگر بچہ اونچی آواز میں بات کرتا ہے، ٹی وی باآواز بلند دیکھتا ہے، حاضر جواب نہیں ہے یا آپکی بات کا جواب فوراً نہیں دیتا تو سمجھ لیں اُسکی سماعت کمزور ہے۔ اُسکے خود کے کانوں میں پہنچنی والی آواز کاسیکوئینس کم ہوتا ہے اور آواز کم سنائی دینے کی وجہ سے وہ اونچا بولتا ہے۔ حتیٰ کہ لوسیکوئینس کی وجہ سے وہ خودنہیں جان پاتا کہ کس قدر لاؤڈ بول رہا ہے ۔ تاخیر سے جواب دینے کی وجہ بات کا اُس کے برین سے کانوں تک دیر سے پہنچنا ہے اور بات کا جواب دینے کیلئے اُسکو بات کا فوری سمجھ میں آنا ضروری ہے ۔
    بار بار ایسا ہونے سے بچہ سمجھ جاتا ہے کہ کوئک رسپانس نہ کرنے کی صورت میں سامنے والا زچ ہو جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ بات کرنے سے کترانے لگتا ہے، ، خود اعتمادی ہوا ہو جاتی ہے ، بات کرتے وقت جھجھک آڑے آ جاتی ہے اوریہ جھجھک ہی در حقیقت احساسِ محرومی ہے۔ ۔
    کسی اچھے ای این ٹی اسپیشلسٹ سے رجوع کرکے کان کا معائنہ کروایا جائے۔ سماعت کم ہونے کی صورت میں آلہ سماعت استعمال کرنا ہوگا۔ عین ممکن ہے بچے کیلئے یہ صورتحال ناقابلِ اِختیار اور مشکل ہو لیکن بحثیت والدین بچے کو یہ بات سمجھنا نا ضروری ہے کہ آلے کا استعمال معیوب نہیں۔ ایسے کئی بچے ہیں جو آلہ سماعت استعمال کر رہے ہیں۔ اِس سے اُنکی روٹین میں کوئی فرق نہیں پڑے گا نہ کوئی مذاق بنائے گا وغیرہ وغیرہ۔۔
    بصارت کی کمزوری:
    بچہ ٹی وی قریب سے دیکھتا ہو، کتاب نزدیک کرکے پڑھتا ہو، لکھتے ہوئے نوٹ بک کو قریب کرلے یا دُور کی چیزوں پر فوکس کرتا ہو تو جان لیں اُسکی بصارت کمزور ہو سکتی ہے۔
    فوراً آنکھوں کے ڈاکٹر (آئی اسپیشلسٹ/آپتھلمولوجسٹ) کو دِکھائیں تاکہ تشخیص کرکے تدارک کیا جا سکے۔ نگاہ کمزور ہونے کی صورت میں نظر کی عینک تجویز کی جائے گی۔آنکھ کے پردوں کا مسئلہ ہویا کوئی اور مسئلہ ہونے کی صورت میں ٹریٹمنٹ فرق ہوگا۔عینک لگنے کی صورت ہو یا ٹریٹمنٹ بچے کو حوصلہ دینا، اُسکو سمجھانا، اُسکو خود اعتمادی کی ترغیب دیناوالدین کا فرض ہے۔
    اسٹیٹس کا فرق:
    احساسِ محرومی کا شکار زیادہ تر مڈل کلاس یا لوئر کلاس بچے ہوتے ہیں۔ کسی کلاس فیلو ، سکول فیلو یا دوست کی امارت کو دیکھ کر بچہ ذہنی طور پر متاثر ہوجاتا ہے ۔اپنی چیز ہلکی دیکھ کر، مقابل کی چیز کے معیار کےمطابق نہ دیکھ کراُسکا احساسِ محرومی بڑھ جاتا ہے۔ وہ ویسی چیز لینا چاہتا ہے جو اُس نے کسی کے پاس دیکھی ہو ۔ انجانے میں وہ اُسکا سٹائل، اُسکی گفتگو، اُسکا لہجہ اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی بات پر اڑ کر اپنی بات منوانے کی ضد کرتا ہے۔ ایسی چیزوں کا مطالبہ کرتا ہے جو والدین کی پہنچ سے باہر ہوتی ہے یا ہو سکتی ہے۔ اُس میں اِتنی سمجھ نہیں ہوتی کہ جان پائے آیا اُسکے والدین افورڈ کر سکتے ہیں یا نہیں
    بچہ اگر روٹین سے ہٹ کر عمل کرے تو فوراً توجہ کیجئے۔ باتوں باتوں میں اُس سے جانئے کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ وہ کسی سے متاثر تو نہیں؟ اگر ہے تو کس سے اور کس وجہ سے؟ وہ ذہنی الجھن و کشمکش کا شکار تو نہیں؟ اگر کوئی الجھن ہے تو اُسکو کہیں کہ آپ کو بتائے۔۔ اُسکو سمجھائیں کہ والدین ہی بچے کے بہترین دوست ہوتے ہیں اپنی ہر پریشانی، الجھن وہ والدین سے شئیر کریں۔
    گھریلو ناچاقی:
    والدین کی آپس کی چپقلش، ضد، بحث بچے کےننھے ذہن پر برے اثرات مرتب کرتی ہے یا یوں کہہ لیں والدین کی ناچاقی بچوں کی شخصیت پر برے اثرات چھوڑتی ہے ۔ اُنکی شخصیت ادھوری اور نا مکمل رہ جاتی ہے۔ وہ ڈپریس رہتے ہیں، ذہنی کشمکش کا شکار رہتے ہیں، اُلجھے رہتے ہیں، لوگوں کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں، دوستوں سے دور ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اُنکے اندر ایک عجیب سی جنگ چھڑی ہوتی ہے جسکا سدِ باب کوئی نہیں کر سکتاسوائے والدین کے۔
    لہذٰا والدین بچوں کے سامنے جھگڑنے سے گریز کریں، بحث و مباحثہ نہ کریں، ذومعنی و طنزیہ باتوں سے اِجتناب کریں۔دونوں کو سوچنا چاہیے کہ اُنکی وجہ سے بچے کی زندگی پر اثر پڑ رہاہے ، اُسکامعصوم ذہن اِن باتوں کا برا اثر لے رہا ہے۔ اپنے رویے کو بہتر بناکر،۔ لڑائی جھگڑے سے گریز کرکےدونوں کو مل کر بچے کو نارمل کرنے کیلئے کوشش کرنی چاہیے۔
    یاد رکھیں بچے قوم کے معمار ہیں لیکن اُنکے معمار والدین ہیں۔ وہ اپنی قوم کو وہی کچھ دیں گے جو کچھ اپنے والدین سے لیں گے۔۔ جیسا اصل ہوگا ویسا سود۔۔ لہذٰا اُنکی مثبت سطح پر تربیت والدین کا فرض ہے۔ احساسِ کمتری و احساسِ محرومی جیسی بیماریوں سے نکالنا والدین کی ذمہ داری ہے۔۔
    زارا رضوان
    Very Informative & Thanks for Sharing

Similar Threads

  1. Replies: 3
    Last Post: 2nd January 2022, 10:10 PM
  2. Replies: 14
    Last Post: 9th March 2013, 10:55 PM
  3. اک شام قیامت سی گزری ( سانحہِ راولپنڈی)
    By phototech81 in forum Urdu Adab & Shayeri
    Replies: 20
    Last Post: 3rd January 2011, 05:27 PM
  4. Replies: 9
    Last Post: 6th October 2009, 04:49 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •