ذہنی ہم آہنگی سے صحیح سمت جانے میں بچے کی مدد کریں۔
اپنے بچے کو وہ بنائیں جو وہ بننا چاہتا ہے نہ کہ وہ جو آپ چاہتے ہیں!
زارا رضوان
.
بچے کی پیدائش پر والدین بہت سی توقعات وابستہ کر تے ہوئے لائحہ عمل ترتیب دینا شروع کر دیتے ہیں۔ بنیادی ضروریات مہیا کرنے کیساتھ ساتھ اُسکی مستقبل کی پلاننگز بھی ساتھ ساتھ جاری رہتی ہیں۔ اُسےکس سکول میں ایڈمیشن دِلانا ہے، سبجیکٹس کون کون سے رکھوانے ہیں، اُسکوکیا بنانا ہے، جاب کیلئے فیلڈ وغیرہ وغیرہ ۔ دیکھا جائے تو یہ غلط نہیں۔ اولاد کے مستقبل کیلئے فکر مند ہونا فطری ہے کیونکہ اولاد والدین کا وہ سرمایہ ہے جو بڑھاپے میں کام آتا ہے، اُنکاسہار ابنتا ہے۔ ۔
ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہےکہ اولاد کواچھا مستقبل دینا چاہتا ہے،اچھی تربیت کیساتھ تعلیم دے کر اُسکو اچھی پوسٹ پر دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ اُس کیلئے بہتر سے بہترین فیلڈ کا اِنتخاب کرتا ہےاور توقع رکھتا ہے بچہ بھی وہی فیلڈ منتخب کرے گا یا اُس فیلڈ میں جائے گا جہاں وہ خود ہے۔ مگرضروری نہیں ایسا ہو۔ ممکن ہے بچہ وہ نہ بننا چاہتا ہو جو آپ چاہتے ہیں۔عین ممکن ہے اُسکا رحجان کسی اور طرف ہو۔ مثلاً آپ چاہتے ہیں وہ سائنس پڑھے جبکہ وہ آرٹس پڑھنے کا خواہشمند ہوسکتا ہے۔ آپ اپنے بچے کوبزنس مین، ڈاکٹر یا انجینئر بنانا چاہتے ہوں مگرکیا پتہ وہ اُستاد، پائیلٹ، قلمکار یا ڈیزائنر بننا چاہتا ہو۔ بات چیت کریں، بچے کو جانیں، اُسکی سوچ کو پرکھیں اُس سے پوچھیں جو وہ کرنا چاہتا ہے۔ نہ کمیونیکیشن گیپ آنے دیں نہ خود کی پسند کو اُس پر حاوی کریں۔
اِرادی و غیر اِرادی طورکچھ بچے وہ وہی سبجیکٹ رکھتے ہیں، اُسی فیلڈ میں جاتے ہیں جو پیرنٹس کہتے ہیں۔ لیکن اکثر بچوں کی ترجیح، سوچ، پسند اور دِلچسپی یکسراً مختلف ہوتی ہے۔ اُنکا رحجان کہیں اور ہوتا ہے ۔ ایسے میں ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ اُنکی پسند، مرضی اور ترجیحات کا احترام کرتے ہوئے اُسکوگائیڈ کریں ۔ آگے بڑھنے میں مدد دیں۔ بہت سے والدین سمجھداری سے کام لیتے ہوئے اپنےبچوں سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا پڑھنا چاہتے ہیں، کونسے موضوع رکھنا چاہتے ہیں، کیا بننا چاہتے ہیں، اُنکی دِلچسپی کس طرف ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ والدین اولاد سے اُنکی رضا پوچھتے ہیں کیونکہ سب اُنہی کو کرنا ہے۔ ریسرچ کے مطابق ایسے بچے زندگی ہے ہر قدم ہر میدان پہ پراعتماداورپر اُمید ہوتے ہیں جنکی والدین کیساتھ ذہنی ہم آہنگی ہوتی ہے اور یہ ہم آہنگی بات چیت سے بنتی ہے۔
ایک سروے کے مطابق بہت سے والدین بچوں پر اپنی رائے اور مرضی مسلط کرتے ہیں کہ یہ پڑھناہے تو یہی پڑھنا ہے، یہ بننا ہے تو یہی بننا ہے اور یہیں پر وہ غلطی کر جاتے ہیں۔ اِس رویے سےبچہ اُلجھن کا شکار ہو جاتا ہے، ذہنی طور پر اپ سیٹ رہنے لگتاہے ۔ سائنس وہ پڑھ نہیں سکتا ، آرٹس سے بھی جاتا ہے۔ یا آرٹس میں اُسکی دِلچسپی صفر کے برابرہوتی ہے اور سائنس بھی اوپر سے گزر جاتی ہے۔نتیجتاًوہ لگن اور دِلجمعی سے پڑھ نہیں سکتا۔ اُنکی ذہنی سطح اوسط درجے تک آجاتی ہے۔ایسے میں بچہ نہ وہ بنتا ہے جو ماں باپ چاہتے ہیں نہ ہی وہ جو وہ خودبننا چاہتا ہے۔ اُسکی شخصیت میں نہ اعتماد رہتا ہےاورنہ ہی وہ پر اُمیدو با اِختیار بن سکتا ہے۔
یاد رکھیں کہ آپکی سوچ صرف آپکی ہے بچے کا آپکی سوچ سے ہم آہنگ ہوناضروری نہیں۔۔ آپکی پسندو رائے صرف آپکی ہےبچے کا اُس سے متفق ہونا لازمی نہیں، اُس پر عمل پیرا ہونا ضروری نہیں ۔اُس نے وہی سبجیکٹ منتخب کرنا ہے جس میں اُس کی دِلچسپی ہوگی۔ عدم دِلچسپی کی صورت میں وہ نہ ٹھیک سے پڑھ سکے گا، نہ اچھے نمبرز لے گا اور نہ ہی اچھی کارکردگی نہ دِکھا سکے گا۔
بحثیت والدین آپ کا فرض ہے کہ اولاد کو سمجھیں،اُسکی نفسیات کو سمجھیں۔ اپنے رویے کو لچکدار بنائیں تاکہ بچہ اپنی سوچ کو الفاظ کا روپ دے کر آپ سے بات چیت کر سکے، اپنی پسند نا پسند بتا سکے۔ اُس سے اُسکی پسند، مرضی اور اِنٹرسٹ پوچھیں ۔ اُسکو صحیح سمت جانے میں مدد دیں۔یاد رکھیں بچے کی کامیابی ، ترقی اور اعتماد کا دارومدار آپکے رویے،عمل او رکمیونیکیشن پر ہے۔