غزل
ہم نے تعبیرِ ستم کو بھی تو اچھا جانا
ہم نے خوابوں کے معلم کی اطاعت کی ہے

تجھ سے پہلے میں کسی اور کی آنکھوں میں تھا
میں نے ہر شخص سے خوابوں کی تجارت کی ہے

کیا کہوں میں جو بکھرتا ہی چلا جاتا ہوں
ٹھیک ہے جو تو نے محبت میں سیاست کی ہے

میں ترا وار تو خالی نہیں جانے دونگا
تیرے ہر وار پہ اکثر میں نے حیرت کی ہے

میں نے جب بھی تجھے آنکھوں میں بسانا چاہا
تو نے ہر بار بچھڑنے کی جسارت کی ہے

وقت تھم جاۓ جو تو مجھ جو کہیں مل جاۓ
میں نے اکثر ترے ملنے پہ یہ حسرت کی ہے

روشنی گھر کی جو بجھتی ہے یوں رفتہ رفتہ
کیا خدا تجھ سے کبھی میں نے شکایت کی ہے؟