[IMG]http://i266.***********.com/albums/ii266/Doctor-Shahid/Hadith/MutaKiMumaniat.jpg[/IMG]
[IMG]http://i266.***********.com/albums/ii266/Doctor-Shahid/Hadith/MutaKiMumaniat.jpg[/IMG]
nice sharing
Bhai Phelley yeah bata dejiye k kya aap shia hain ? aur shaat shaat hawala bi dey dejiye k yeah bat kaha aur kiss kitab main leakhi howi hey ?? Allah pak ney aap ko Asraf ul maklokat banaya hey zara apney dimag sey bi sochiye
والذین ھم لفروجھم۔ الا علیٰ ازواجھم او ما ملکت ایمانھم فا نھم غیر ملومین
کے اور جو
( تمام عورتوں سے) اپنے شرم گاہوں کی حفاظت رکھنے والے ہیں سواے اپنی بیویوں کے اور اپنی (شرعی ) باندیوں کے کیونکہ (بیویوں اور شرعی باندیوں سے شرمگاہوں کی حفاظت نہ کرنے) ان پر کوی الزام قایم نھی کیا جائیگا۔ (تفسیر مظہری)۔
تفسیر روح البیان میں اس تفسیر کے تحت لکھا ھوا [color=#4000FF]ھےکہ:
الفرج والفراجۃ بمنی دو چیزوں کے درمیان سوراخ۔ دیوار کے سوراخ کو فرج و فرجۃ سے تعبیر کرتے ھیں۔ دو پاوں کے درمیان کی حصے کو فرج کہا جاتا ھے ، یہاں پر شرمگاہ مراد ھے۔ اور جمع کے صیغے میں تصریح مطلوب ھے۔
حفظون یعنی وہ اپنے فروج(شرم گاہوں) کو حرام سے روکنے والے ہیں اور انہیں غیروں کے ملک میں نھی چھوڑتے اور نہ ھی انہیں بیجا استعمال کرتے ھیں الا علیٰ ازواجھم سواے اپنی عورتوں کے۔ او ما ملکت ایمانھم یا (سواے) اپنی کنیزوں کے جو ان کی اپنی ملک میں ہیں۔
ما ملکت اگرچہ غلاموں کو شامل ھے لیکن یہاں پر اجماع صرف کنیزیں مراد ھیں۔
(روح البیان)
تفسیر حقانی میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ھے کہ:
والذین ھم لفروجھم الخ وہ جو اپنی بیویوں اور شرعی لونڈیوںکے سوا اور کسی پر ناشتہ نھہ کھولتے اس سے لواطت اور سحق اور ہاتھ سے منی نکالنے کی بھی ممانعت ثابت ھوی اور متعہ کی بھی ممانعت سمجھی گی۔ اس لیے کہ متاعی عورت حصہ یہ ملنے کی وجہ سے بیوی نھی اور نہ لونڈی ہے پھر کیونکر مباح ھو سکتی ھے۔
(تفسیر حقانی)
ایک دوسری آیت میں اس تفسیر کے تحت لکھا ھوا ھے کہ:
اس آیت میں اہل ایمان کو شرم گاہ کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ شرمگاھوں کی حفاظتکے حکم سے دو قسم کی عورتوں کو مثتثنیٰ کیا گیا ھے۔
ایک ازواج دوسرے ما ملکت ایمانھم "ازواج" کا اطلاق عربی زبان کے معروف استعمال کی رو سے بھی اور خود قرآن کی تصریحات کے مطا بق بھی صرف ان عورتوں پر ھوتا ھے جن سے باقایدہ نکاح کیا گیا ھو، اور یہ ھی اس کے ھم معنی اوردو لفظ "بیوی" کا مفہوم ھے۔
bakwaas band kro
or
galt bat ko hamre rsool SAW k sath munsalik mat kro
plzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzz
رہا ما ملکت ایمانھم ، تو عربی زبان کے محاورے سے اور قرآن کے اسعمالات دونوں اس پر شاہد ہیں کہ اس کا اطلاق لونڈی پر ھوتا ھے، یعنی وہ عورت جو آدمی کی ملک میں ھو۔ اسطرح یہ آیت صاف تصر یح کر دیتی ھے کہ منکوحہ بیوی کیطرح مملوکہ لونڈی سے بھی صنفی تعلق جائز ھے اور اسکے جواز کی بنیاد نکاح نھی بلکہ ملک ھے۔ اگر اس کیلئے بھی نکاح شرط ھوتا تو اھے الگ سے بیان کر نیکی کو حاجت یہ تھو کیونکہ منکوحہ ھونے کی صورت میں وہ بھی ازواج میں داخل ھوتی۔
( تفہیم القران)
ایک اور جگہ اس آیت کے تحت لکھا ھے کہ:
اسلام میں نفسانی خواہش کی تکمیل کے دو طریقے ھہ روا ہیں: اپنی منکوحہ بیوی اور مملوکہ کنیز۔ اور اس کے علاوہ اور سارے طریقے شریعت نے حرام کر دیے ھیں۔
اہل تشیع متعہ کو مباح سمجھتے ھیں، یہ صرف مباح بلکہ اس کے فضائل بیان کرنے میں بڑی مبالغی آرای سے کام لیتے ھیں۔
تعریف متعہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عن نے فرمایا ابتداے اسلام میں متعہ کرنا جائز تھا۔
مطلب یہ کوی شخص اجنبی شہر میں جاتا ھے اور وہاں کو جان پہچان والا نہ ھوتا تو جس قدر قیام کا ارادہ ھوتا اتنی مدت کے لئے کسی عورت سے نکاح*کر لیتا تاکہ عورت اس کے لیے کھانا تیار کر دے اور سامان کی حفاظت رکھے یہاں تک جب آیت الا علیٰ ازواجھم او ما ملکت ایمانھم نازل ھوی تو سوایے ان دونوں قسموں کے ھر عورت حرام ھو گئ۔
(تفسیر مظہری)
اس آیت کی موجودگی میں مزید کسی بحث و تمحیص کی ضرورت نھی۔ میں فقطان صاحبان کی غیرت ایمانی اور حمیت انسانی سے اتنا پوچھنے کی اجازت طلب کرتا ھوں کہ کیا وہ اپنی بچیوں اور بہنوں کے لیے یہ امر پسند کرتے ھیں کہ ان کو کوی متعہ کا پیغام دے یا وہ متعہ کرتی پھریں۔اگر وہ اس کے تصور سے بھی لرز جاتے ھیں ۔ تو پھر وہ امت محمدیہ کی بچیوں کے لیے یہ کیسے برداشت کر لیا جاے ؟؟؟
متعہ کے جواز کے قائل حضرات حضرت ابن عباس کے قول کو خوب اچھالتے ھیں؟حقیقت میں یہ آپ پر بہت بڑا بہتان ھے ۔ آپ نے کبھی اس کی مطلق اباحت کا قول نہی کیا ،بلکہ آپ شدید قسم کی اضطراری حالت میں اس کے جواز کے قائل تھے۔
چناچہ جب آپ سے اسکے مطعلق دریافت کیا گیا تو آپ غصہ سے اٹھ کھڑے ھوے اور فرمایا:
ان المتعہ کالمیۃۃ والدم ولحم الخنیر
یعنی متعہ مردار جانور اور خنزیر کے گوشت کی مانند ھے۔
اس قول سے حضرت ابن عباس کی راے کی حقیقت آپ پر واضح ھو گئ ھو گی۔
صحیح بات یہ ھے کہ آپ نے اس قول سے بھی رجوع کر لیا تھا۔
اور اگر بلفرض محال یہ مان بھی لیا جاے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عن کا یہ مزہب تھا اور آپ نے اس سے رجوع بھی نھی کیا تو پھر بھی ھم پر اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی مکرمھے نہ کسی اور کی۔ : pbuh: کے فرمان کی تعمیل واجب ھے نہ کسی اور کی۔[/color][/quote][/SIZE]
Nabi Saw ki Zuban Se Nikla Howa Har Lafaz Allah Ka Lafaz he
our Allah Ne apna Koi bhi Lafaz Kabi Wapis Nahi Liaa
jazakallha Doctor bhie
Taha bhie ap ko ghalat fehmi hogaye hay yahan {{NAHA}} ka lafz hay jo arbi may MANA karnay ka wstay ata hay fel mazee maloom hay
jab k aap esa URDU wla NAHE samjh gaye hay
umed hay k ghalat fehmi door hogaye hoge
or bhie tama doisto say drkhwast hay k zara ikhlaq k dayre may bat kiya karen
السلامُ علیکم
اس تحریر کو پڑہنے، پسند کرنے اور حوصلہ بڑہانے کا بے حد شکریہ
جن دوستوں کو اس حدیث پر کسی بھی قسم کا اشکال ہے وہ برائے کرم لمبی چوڑی عبارت پیسٹ کرنے کے بجائے اصل اعتراض والی بات اور اس پر اپنا تبصرہ لکھ دیں میں انشا اللہ واضح جواب دے دوں گا اور اسی حوالے سے ایک اور بہت واضح حدیث انشا اللہ آج پیش کروں گا جس سے یہ معاملہ بالکل صاف ہوجائے گا
اللہ پاک ہمیں دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے آمین
والسلام
[IMG]http://i266.***********.com/albums/ii266/Doctor-Shahid/Personal/HadithCorrection.jpg[/IMG]
رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال__________________________________________________ _______________
" يا ايها الناس اني قد كنت اذنت لكم في الاستمتاع من النساء وان الله قد حرم ذلك الى يوم القيامة
فمن كان عنده منهن شىء فليخل سبيله ولا تاخذوا مما اتيتموهن شيئا"
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : اے لوگو! میں تمہیں عورتوں سے متعہ کی اجازت دیتا رہا ہوں
اور بےشک اللہ تعالیٰ نے یہ چیز اب قیامت تک کے لیے حرام کر دی ہے
صحيح مسلم ، كتاب النكاح ، باب نكاح المتعة وبيان انه ابيح ثم نسخ ثم ابيح ثم نسخ واستقر تحريمه الى يوم القيامة ، حديث:3488
Bookmarks