part 1
part 2
part 3
اس طرح سے اور بھی کئی مزاحیہ دور چلے۔سب نے تھوڑی دیر کا بریک لیا۔مگر حسب عادت ہمارے ارسلان میاں کو چین کہاں۔وہ سب کو تنگ کرنے کے لیے باری باری سب کا نام لیتا اور مزاح سے بھرپور کوئی بھی جملہ ہماری نظر کر دیتا۔سرعمر،عدنان،ابوبکر،عمیراور نوشین مکمل طور پر اُس کے مزاح کا شکار ہوئے۔ہنسی کا یہ کارواں ہونہی رواں دواں تھا کہ اچانک ہم سب پر یہ آشکار ہوا کہ جس ڈرائیور کے بھروسے ہم سب اتنی لاپرواہی سے چلے جا رہے ہیں وہ تو ننکانہ صاحب کا راستہ ہی نہیں جانتا۔تو جناب ہماری گاڑی رُکی۔کنڈیکٹر نے آس پاس کے لوگوں سے راستہ معلوم کیا اور ہماری گاڑی آگے بڑھی۔دس بج کر گیارہ منٹ پر عمیر نہایت احترام کھڑا ہوا تاکہ ہم سب کو آنے والے وقت سے آگاہ کر سکے۔عمیر کچھ یوں گویا ہوا کہ "خواتین و حضرات اب پہاڑی سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔جن حضرات کو پتھری کی شکایت ہے اُن کی نکال دی جائے گی اور جن کو نہیں ہیں اُن میں ڈال دی جائے گی۔شکریہ"
اس مفت علاج کے بارے میں سن کر ہم سب مسکرا دیئے۔ہماری گاڑی پھر رُکی اور کنڈیکٹر راستہ جاننے کے لیئے اُترا۔اُس کی واپسی پر ہمیں پتہ چلا کہ ہم ہسنتے مسکراتے پانچ کلو میٹر آگے نکل آئے ہیں۔گاڈی واپس مُڑی اور ہمارا سفر پھر سے شروع ہوگیا۔
اب آپ سب لوگ حیران ہو رہے ہوں گے کہ اتنی دیر سے ہمارے ارسلان میاں کیا کر رہے ہیں?تو گبھرائے مت کیونکہ اب ارسلان بےچارے کنڈیکٹر کو اپنی شرارتوں کا نشانہ بنا رہا تھا۔گاڑی میں کیسٹ تو چل ہی رہا تھا۔ارسلان ناچ تو گانے کی دھن پر رہا تھا،مگر گہر کنڑیکٹر پر رہا تھا۔ارسلان کھبی اُس کے کندھے پر ہاتھ زور سے مارتا،تو کھبی اُس کو آنکھ مارتا جس پر کنڈیکٹر کو شدید حیرت ہوتی۔کھبی ارسلان اُس کی جیب میں ہاتھ ڈالتا،تو کھبی اُس کے سر تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔ارسلان کی شرارتوں سے وہ آدمی سخت پریشان آچکا تھا۔مگر ایک کمال کی بات جو میں نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ ارسلان ہر وہ کام کرتا جس سے وہ آدمی سخت غصے میں آتا۔مگر جیسے ہی وہ غصہ کرنے لگتا ارسلان اُس کو گلے لگا کر اُس کا غصہ کافور کر دیتا۔پر مجھ کو معلوم نہ ہو سکا کہ یہ ارسلان کا کوئی ہنر ہے یاں اُس کنڈیکٹر کا صبر۔
10:42 پر پماری گاڑی ننکانہ صاحب کے گنجان آباد راستوں سے ہوتی ہوئی گردوارے کے بیرونی دروازے پر جا پُہنچی۔یہاں پر سرعمر کھڑے ہوئے اور ہم سب کوہدایت کی کہ "یہاں پر کوئی بھی کسی قسم کی شرارت یاں ایسی حرکت نہ کرئے جو کسی نقصان کا باعث بنے کیونکہ یہ ایک الگ قوم اور مذہب ہیں"۔{اس کے ساتھ ہی خبرے ہوئی ختم اللہ حافظ}۔ یہ لائن دل ہی دل میں ضرور سب نے پڑھی ہو گی۔
یہاں پر ہمارا استقبال دیال سنگھ نے کیا۔جو وہاں کا موجودہ نگران تھا۔ہم سب اندر دخل ہوئے۔دائیں اور بائیں جانب آنے جانے کے لیئے دو راستے تھے۔جن کے درمیان 1989 کی طرز کا باغ بنا ہوا تھا۔ 3 منٹ کی واک کے بعد ہم سب مین گیٹ پر تھے۔دیال نے سب کو ہاتھ منہ دھونے،جوتے اُتارنے اورسر ڈھانپنے کی ہدایت دی۔جس پر سب نے عمل کرتے ہوئے اپنے جوتوں کو اتار کر گرم فرش پر چلنے کا فیصلہ کیا۔مین دروازے کو پار کرنے کے بعد ہمارا سامنا گرمی اور تپتے فرش سے ہوا۔ مگر ہم سب آگے بڑھتے گئے۔کچھ دوری پر ایک کنواں ہماری توجہ کا مرکز بنا۔ دیال نے اس کی وضاحت میں یہ بتایا کہ یہاں سے وہ پاک پانی نکلتا ہے جس کو ہم ویسے ہی پیتے ہیں جیسے آپ اپنے آب زم زم کو۔میں نے سوچا کہ ہمارے پانی کے پاک ہونے کی تو ایک باقاعدہ ہسٹری ہیں۔ان کی کیا story ہیں?میں نے اپنے سوال کو دیال سنگھ کے سامنے رکھا۔مگر وہ مجھ کو کوئی ٹھوس وضاحت نہ دے پایا۔ہم وہاں سے آگے بڑھے۔ایک تویل گرم فرش والے صحن کو پار کرتے ہوئے میں اُس عرش والے سے گرمی کم کرنے کی دُعا کرتی جا رہی تھی اور چلتی جارہی تھی۔کچھ دیع بعد ہم اُن کی عبادت گاہ میں پہنچے۔اٍس کو وہ لوگ پالکی کہتے ہیں۔
پالکی کے پاس ہارمونیم اور تبلہ رکھا ہوا تھا۔غور سے دیکھنے پر ہم کو وہاں ایک عدد سردار لڑکا بھی نظر آیا۔یہ دیال سنگھ کا چھوٹا بھائی آمرت سنگھ تھا۔دیال نے ہم کو بتایا کہ وہ لوگ دن میں دو بار عبادت کرتے ہیں۔عمیر کی فرمائش پر آمرت سنگھ نے اپنا ہاتھ تبلے کے سر پر مارا جس کا نتیجہ اچھے سازوں میں موصول ہوا۔وہاں سے آگے دیال سنگھ ہم کو ایک کمرے میں لے گیا۔جہاں نیایت ہی شاندار بیڈ تھا۔A-C لگا ہوا تھا۔کمرے کی ایک جانب الماری تھی جس میں مہنگے بستر پڑے تھے۔ایک طرف میز پر سونے اور چاندی کے بنے چور صاحب پڑے تھے۔چور صاحب وہ چیز ہے جس کے ذریعے یہ لوگ اپنے گورو نانک کی پالکی پر سے مکھی وغیرہ اُڑاتے ہیں۔میز پر بہت سی چھوٹی کتابیں بھی پڑی تھیں۔اس کتاب کا نام نت نیم تھا۔جس میں تمام بھجن کیرتن درج تھے۔ایک کتاب ہمیں بھی دی گئی اس ہدایت کے ساتھ کہ اس کا احترام ہم ایسے ہی کرئے جیسے ہم اپنے قرآن پاک کا کرتے ہیں
آج کے لیئے اتنا ہی کل تیسرے اور آخری حصہ کے ساتھ پھر حاضر ہونگی۔
آپکی رائے میرے لیئے قیمتی ہیں۔
so just take good care of ur self see u soon.
اللہ حافظ
Bookmarks