تیری آنکھوں سے کالے کالے
تیرے شہر کے رستے لگتے ہیں
میرے بالوں سے الجھے الجھے
تیرے شہر کا چاند بھی دکھتا ہے
تیرا چہرہ سا روشن روشن
تیرے شہر کے لوگ بھی ہیں جیسے
خیالات میرے گہرے گہرے
تیرے شہر میں کھلے گلاب ہیں کیوں
تیرے گالوں سے مہکے مہکے
تیرے شہر کے پنچھی کم تو نہیں
میرے یاروں سے روٹھے روٹھے
تیرے شہر کی دھوپ کا کیا بولوں
تیری یادوں سی اجلی اجلی
تیرے شہر کی بارش ایسے کہ
میرے آنسو سے رم جھم رم جھم
تیرے شہر کو دیکھا ہے جب سے
ہے من میں آگ لگی تب سے
تیرے شہر کو آنچ نہ آئے کبھی
مانگوں میں دعاؤں میں رب سے
تیرے شہر سے لوٹنا ویسے تو
کسی پچھتاوے سے کم تو نہیں
اور جھوٹ کہوں گر یہ بولوں
اس دکھ سے آنکھیں نم تو نہیں
تیرے شہر میں جب الجھا الجھا
میں خود سے باتیں کرتا ہوں
ہنستا ہوں سب کے سامنے میں
اور تنہا آہیں بھرتا ہوں
اس شہر کے خواب ہی اچھے ہیں
انہیں خوابوں سے تعبیر نہ کر
وہ پیار کا پہلا شہر سہی
اسے پاؤں کی زنجیر نہ کر
Bookmarks