جب اندھیری راتوں میں تاریکیاں گہری ہوتی ہیں
اور دِل آنگن میں تنہائیاں اُتری ہوتی ہیں
تو حبس کی قید میں ہر سانس مرنے لگتی ہے
ایسے میں اچانک ، تیری یاد کا جگنو
روشنی کی کِرن بن جاتا ہے
پھر دھیرے دھیرے
ترے لہجےکی نرماہٹ
شبنم بن کر برسنے لگتی ہے
اور تیری یادوں کی خوشبو روح کو
معطر کرنے لگتی ہے
تیری ہنسی کا جلترنگ دل کے تاروں کو
یوں چھونے لگتاہےکہ
نس نس میں ڈھیروں سکوں اُترآتا ہے
تب میں ہنس پڑتی ہوں
اور خوابوں کی چادر
اوڑھ کے سو جاتی ہوں
Bookmarks