سوچتا ہوں کے اسے نیند بھی آتی ہو گی
یا میری طرح فقط عشق ہی بہاتی ہو گی
وہ میری شکل میرا نام بھلانے والی
اپنی تصویر سے کیا آنکھ ملاتی ہو گی
جس زمیں پر بھی ہے سیلاب میری آنکھوں سے
میرے ماتم کی صدا عرش ہلاتی ہو گی
شام ہوتے ہی وہ چوکھٹ پر جلا کر شمعیں
اپنی پلکوں پہ کئی خواب سلاتی ہو گی
اس نے سلوا بھی لیے ہوں گے سیاہ لباس
اب جانے کس طرح خوشیاں مناتی ہو گی
ہوتی ہو گی میرے بوسے کی طلب میں پاگل
جب بھی زلفوں میں کوئی پھول سجاتی ہو گی
میرے تاریک زمانوں سے نکلنے والی
روشنی تجھ کو میری یاد دلاتی ہو گی
دل کی ماسوم رگیں خود ہی سلگتیں ہوں گی
جونہی تصویر کا کونا وہ جلاتی ہو گی
روپ دے کر مجھے اس میں کسی شہزادے کا
اپنے بچوں کو کہانی وہ سناتی ہو گی
Bookmarks