سپنے کیسے بات کریں
خدشوں کی زنجیر پڑی ہے نیند بھری سب آنکھوں میں
سہنے کیسے بات کریں
سپنے کس سے بات کریں
جن لوگوں کا رستہ تکتے عمریں رزق خاک ہوئیں
اب وہ لوگ اور ان کے سپنے دیکھنے والی
آنکھیں بجھ کر راکھ ہوئیں
راکھ کے اس انبار میں ہوں گے کیسے کیسے زندہ خوب
خوابوں کی اس راکھ کو لیکن چھیڑے کون
جس رستے پ چھاؤں نہ پانی
اس پر ڈیرے ڈالے کون
جس مٹی مں ریت ملی ہو
اس میں کیسے باغ لگائیں
دریا ہی پایاب ہو جب
اس میں کشتی کیا لے جائیں
خوشبو ایک آوارہ جھونکا، اس جھونکے کو گھیرے کون
کیسے دنیا کو بتلاؤں ، تم میرے ہو ہوتے کون
Bookmarks