چند روز پہلے اخبار میں ایک خبر پڑھی ویسے تو اخبار پڑھ کر ہر روز دل بجھ سا جاتا ہے مگر اس خبر نے دل کو واقعی زخمی کر کے رکھ دیا کیونکہ خبر ایک بیٹی کے حوالے سے تھی اس لیے فطری طور پر اس خبر کو پڑھ کر میرے دل پر بھی کاری ضرب لگی جس کا درد اب تک میں محسوس کر رہی ہوں مجھے تو یوں لگا جیسے ابن آدم کی طرف سے بنت حوا کے گال پر ایک زور دار تھپڑ رسید کیا گیا ہے ۔ جس کی سرخی ابھی تک میرے چہرے سے نہیں ہٹی۔ پڑھے لکھے جاہل لوگوں کو شاید یہ تحریر عبث ہی لگے مگر میرے نزدیک بلکہ ہر بیٹی کے نزدیک یہ خبر ایک غلیظ گالی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔
یہ گالی کسی غیر نے نہیں دی بلکہ یہ گالی ایک بیٹی کو اس کے حقیقی باپ نے دی ہے یہ غلیظ گالی ہر بیٹی بلکہ ہر عورت کی ذات پر ایک سوالیہ نشان ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اس ترقی یافتہ اور روشن خیال دنیا میں جس میں ایک عورت کو لامتناہی حقوق حاصل ہیں ۔ ہر طرف عورت کے حق اور عورت کے احترام کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے ۔ برابری کا نعرہ بلند کیا جا رہا ہے مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ اس دنیا کی بھٹی میں جلنے کو کہا جا رہا ہے ۔ اسی دنیا میں ایک باپ اپنی چوتھی بیٹی کی پیدائش پر اس کا نام ”مس کال“ رکھ دیتا ہے ۔
عورت ذات کی اس قدر تذلیل اس قدر توہین جی ہاں قارئین! خبر کچھ یوں ہی تھی کہ
”ایک شخص نے مسلسل چوتھی بیٹی کی پیدائش پر اس کا نام ”مس کال“ رکھ دیا ۔ جس پر اس کی بیوی روٹھ کر میکے چلی گئی اور مطالبہ کیا کہ وہ اس کا نام تبدیل کرے“۔
مجھے دکھ اس بات پر ہوا کہ قابل احترام والد صاحب مسلمان بھی ہیں ، شاید ان کی نظر سے سورة شوریٰ کی آیت نمبر 49 اور 50 نہیں گزری جس میں اللہ رب العزت فرما رہے ہیں کہ
”آسمانوں اور زمین کی بادشاہی صرف اللہ کے لیے ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جسے چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے ، یا انہیں ملا کر دیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جسے چاہے بانجھ بنا دیتا ہے وہ بڑا جاننے والا بڑی قدرت والا ہے“۔
اللہ رب العزت اپنی ہی اس مقدس ترین کتاب کی سورة النحل آیت نمبر 59,58 میں ارشاد فرماتا ہے : ”ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کاچہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرتا ہے سوچتا ہے کہ کیا اس ذلت کو لیے ہوئے ہی رہے یا اسے مٹی میں دبا دے ۔ آہ! کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں؟“۔
سورة الزخرف آیت نمبر 17میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا کہ
”جب ان میں سے کسی کو اس چیز کی خبر دی جائے جس کی مثال اس (اللہ) نے رحمن کے لیے بیان کی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ غمگین ہو جاتا ہے“۔
ایک طرف تو ہم عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کے دعوے دار ہیں اور دوسری طرف ہم فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سرے سے ہی بھلا بیٹھتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو بیٹی کی آمد پر اپنی چادر بچھاتے اپنی جگہ پر بٹھاتے ۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آیا ہے کہ
”جس آدمی کو بچیاں دے کر آزمایا گیا پھر اس نے ان کے ساتھ اچھا برتاﺅ کیا تو یہ بچیاں آگ اور اس کے درمیان (قیامت کے دن) رکاوٹ بن جائیں گی“۔
پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش دلی سے بیٹیوں کی پرورش کرنے والوں کو خوشخبری دی ہے کہ
”جس کسی نے جوان ہونے تک دو بچیوں کی پرورش کی میں اور وہ قیامت کے دن ان دو انگلیوں کی طرح اکٹھے ہوں گے اور آپ نے اپنی دو انگلیوں کو ملایا ایک جگہ پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
”جس کسی کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں پھر وہ اللہ کا خوف کھا کر ان کی پرورش کرتا رہے وہ میرے ساتھ اس طرح جنت میں ہو گا ۔ آپ نے درمیان اور شہادت والی دونوں انگلیوں کی طرف اشارہ کیا ۔
واہ! بیٹیوں کی بدولت کیا ”ساتھ“ نصیب ہو گا ۔ کاش! کوئی اس طرف بھی دھیان کرے ۔
بیٹیوں کی آمد پر ناگواری کا اظہار کرنا، ان کی تذلیل کرنا، ان سے بیزاری ظاہر کرنا نہ صرف مشرکانہ فعل ہے بلکہ اس سے قرآن وسنت کی بھی نفی ہوتی ہے اس کے علاوہ اس خواہش کے ہوتے ہوئے نسل انسانی کی بقاءممکن نہیں ہے بہتر معاشرتی نظام اور نسل انسانی کی بقاءکے لیے جہاں بیٹوں کی ضرورت ہے وہاں بیٹیوں کی بھی ضرورت ہے ۔
اللہ رب العزت نے کائنات میں ایسی کوئی شے نہیں بنائی جو عبث ہو ۔ مجھے ان والدین سے جو بیٹیوں کی آمد پر خوش نہیں ہیں یا نہیں تھے ان سے صرف اتنا کہنا ہے کہ توبہ کر لیں اور صرف اتنا سوچیں کہ
خطائیں دیکھتا بھی ہے عطائیں کم نہیں کرتا
سمجھ میں نہیں آتا وہ اتنا مہرباں کیوں ہے؟
بیٹی اللہ رب العزت کی رحمت ہے اور اللہ رب العزت کی رحمت کو ٹھکرانے والوں کو اپنے انجام کی فکر کرنی چاہیے۔ آگہی اور یاددہانی کے بعد اپنی بہتری اور فلاح کے لیے اپنے اعمال کو درست کرنا ہی عقل مندی ہے ۔ ورنہ خسارہ ہی خسارہ ہے۔
بیٹے بیٹی کے فرق کو تم مٹا دو آج
یہ ہے برسوں کی گتھی اسے سلجھا دو آج
صرف چاہت سے سینے سے لگاﺅ اس کو
صدقہ جاریہ بس صرف بناﺅ اس کو
گزارش ہے اس محترم باپ سے جس نے اپنی بیٹی کا نام ”مس کال“ رکھا ہے کہ وہ لمحے بھر سے پہلے اپنی بیٹی کا نام تبدیل کرے اور اپنے اس فعل پہ اللہ رب العزت سے معافی کا طلبگار ہو
Bookmarks