سیکولر نظام مغربی نظام حکومت میں جمہور یت کی بنیاد ہے ۔ گو سیکولر نظام میں مذہب کو سیاست سے الگ کردیا گیا ہے ۔اورسیکولر نظام حکومت ایک خالص سیاسی رویہ ہے ۔ لیکن ایسی حکومت میں فرد کی مذہبی آزادی پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی ' اس کا مطلب مملکت کے شہریوں کے حقوق و فرائض بلا کسی مذہبی امتیاز کے مساو ی سمجھنا ان کے درمیان مذ ہبی و لسانی بنیادوں پر کسی قسم کا امتیاز نہ برتنا ۔ لیکن مغربی سیکولر جمہوری حکومتیں جو بظاہر سیکولرنظام جمہورت کی داعی ہیں ۔ لیکن ان کی نام نہاد جمہوریت کا اس کا اصل چہرہ اور حقیقت کچھ اور ہے ۔؟ مغربی ممالک میں سیکولر نظام حکومت کے باوجود بالخصوص مسلمانوں اور اسلام کے خلاف مذہبی امتیاز اور ان کے متعصبانہ رویے ہیں جو ان کے سیکولر لبرل نظریات کو جھٹلا رہے ہیں ۔آج مغربی جمہوری سیکولر ممالک میں بالخصو ص مسلمانوں کی اسلامی اقدار و شعار کے خلاف ا ن کے میڈیا کی پروپیگنڈا مہم جاری ہے ۔ اور مغربی دنیا اسلامی اقدار اپنے کلچر کے لئے مضر اور اسے کلچر تصادم کا خطرہ قرار دے رہی ہے اور بعض مغربی ممالک نے سرکاری و تعلیمی اداروں میں ہیڈ سکارف پر بھی قانونی قدغنیں لگادیں ہیں ۔یعنی ان ادا ر وں میں خواتین ہیڈ سکارف تک اُوڑھ کر نہیں آسکتیں ۔ مغربی ممالک میں کلچر تصادم کے نام پر اسلام کے خلاف مذہبی تعصب اور نسل پرستی کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔
ترکی کی مغرب نواز سیکولر نظام حکومت مغرب کے نقش قدم چل رہی ہے۔١٩٨٠ء میں سلیمان ڈیمرل کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر بر سر اقتدار آنیوالی فوجی حکومت جو کمال اتاترک کے ترک نظریات کے راہنما اصولوں کو عقیدہ کا درجہ دینے پر بضد ہیں۔اور ترکی کی سیکولر لادینی فوجی جنتا کی گود میں پروش پانے والی سیاست کے نزدیک ہر مذہبی شعار کو مٹا دینا ہی سیکو لر نظریات کی تقویت کے لئے ضروری ہے۔١٩٩٨ء میں ترکی کی خواتین کا ہیڈ سکارف بھی قانون کی زد میں آگیا ۔ اس قانون کی رُو سے ترک خواتین کے لئے سکارف اُوڑھ کر اعلیٰ تعلیم یونیور سٹی میں داخلہ پر پابندی عائد کردہی گئی ایسی بے جا پابند ی کے ردعمل میں ترکی میں سیکولرازم اور مذہبی عناصر کے مابین گذ شتہ کئی عشروں سے جاری وسیع تر نظریاتی اور سیا سی کشمکش کا محض ایک اظہار ہے کہ بالاخر پارلیمنٹ سے اکثریت کے ووٹ نے اس پابندی کا خاتمہ کروایا ۔ لیکن اگر پارلیمنٹ کے فیصلہ کی صدر توثیق کردیتا ہے تو اٹارنی جنرل اس کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اس فیصلہ کو چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ ان کے خیال میں سکارف اُوڑھنے کا مطلب پردے سے زیادہ نظریاتی ( مذہبی) وابستگی کا اظہار سمجھا جا تا ہے ۔سکارف کے حمایتیوں کا کہنا ہے کہ عورتوں کا سکارف اُوڑھنا ضمیر اور شخصی آزادی کا مسئلہ ہے ۔ اور ریاست سے اس بات کا کوئی تعلق نہیں ۔جبکہ سکارف کے مخالفین کا مو قف یہ ہے کہ یہ ریاست اور مذہبی عقیدے کے علیحدہ رکھنے کا سوال ہے ۔وہ سمجھتے ہیں سکارف اُوڑھنے کی آزادی دینا مذہب کو سیاسی مقصد کے لئے استعمال کرنا ہے ۔
گویا ان کے بظاہر سیکولر لیکن ان کے نام نہاد نظریات سیکولر نظام اور جمہوریت کے اصولوں اور ضمیر اور شخصی آزادی یعنی فرد کی مذہبی آزادی کے سراسر منافی ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کمال اتاترک کے لادینی نظریات ترک سیاست میںراہنما اصو لوں کی بجائے عقیدہ کا درجہ اختیار کر چکے ہیں ۔ جدید ترکی کے سیاسی نظریات جنہیں بعد میں فوجی جنتا نے عقیدہ کا درجہ دے دیا۔ یہ ایسے غیر فطرتی سیاسی نظریات ہیں جنہیں انسانی فطرت دھکے دیتی ہے ۔جبکہ ترکی کی فوجی جنتا کی اشرافیہ نے اپنے جمہوری ملک میں جمہور یت اور انسانی فطرت کے منافی ترکی کے قوانین وضع کئے ہوئے ہیں ۔ان قوانین کے ذریعہ عوام کی ضمیر کی آزادی شخصی و مذہبی آزادی کو چھین کر اسے اپنی جبر کی سیاست کا پابند کر نے کا فیصلہ کیا ہوا ہے ۔گویا ترکی کی اشرافیہ نے فوجی جنتا کی بل بوتا پر ترکی میں جمہوریت کے نام پر آمریت قائم ہوئی ہے ۔ بظاہر یہ کہا جارہا ہے کہ ترکی سیکولر لادینی نظام کو مذہبی انتہا پسندی کے احیاء کا خطرہ ہے حالانکہ ایسا کوئی خطرہ نہیں ۔ دراصل کرپٹ حکمران روشن خیال اشرافیہ کو ان کی غیر جمہوری پالسیوں کو عوامی طاقت سے خطرہ ہے۔ ۔لیکن ترکی کی کر پٹ روشن خیال اشرافیہ جو اپنے مخالفین پر سیکولر ازم نظام کی مخالفت کا الزام مذہبی عناصر کو دے رہی ہے ۔ یہ الزام درست نہیں ہے ۔ حالانکہ حقیقی سیکولر نظام اگر ترکی میں قائم ہوجا ئے تو اس سے ہر فرد کو ضمیر کی آزادی شخصی و عقیدہ کی آزادی حاصل ہوجائے گی پھر ا س نظام سے کسی کو کیا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
مغربی ممالک میںبالخصوص یورپی ممالک اور ترکی کی مملکت میں اور مشرق میں بھارت نے سیکولر ازم کے نام پر اپنی نسلی برتری اور مذہبی امتیاز کی پالیسی جو ا ختیار کی ہوئی ہے ان سب ممالک میں بالخصوص مسلمانوں شہریوں کی ضمیر کی آزادی ' عقیدہ کی اور شخصی آزادی انکی گندی منافقانہ سیاست کا تختہ مشق بنی ہوئی ہے۔
Bookmarks