[SIZE="5"]مذہب اور مملکت کا مسئلہ ایک ہمہ گیر آفاقی مسئلہ ہے مگر پوری سنجیدگی سے تحقیق نہیں کی گئی حضرت عیسٰی علیہ السلام نے فریسوں کو ایک تاریخی جواب دیا تھا جو انجیل میں ان الفاظ میں درج ہے ''تب اس نے کہا کہ جو قیصر کا ہے قیصر کو دو ،اور جو خدا ہے وہ خدا کودو ۔''( متی باب ٢٢ آیت ٢١) حضرت عیسٰی علیہ السلام کے اس بیان کی رُو سے مذہب اور سیاست کو الگ رکھا جائے اور فرد کی شخصی ،ضمیر کی آزادی عقیدہ کی آزادی پر ریاست کی طرف سے کوئی قدغن لگائی جائے ۔کیونکہ مذہب و سیاست دوپہیوں کی طرح ہیں ۔جب تک سب کل پُرز ے اپنی اپنی جگہ پر قائم رہتے ہوئے دونوں پہئیے صحیح سمت حرکت کرتے رہے ہیں تو پھر سیکولر نظام یا کسی نظام میں بھی مذہب و سیاست کے تصادم میں جھگڑے کا سوال ہی پیدا نہ ہوگا ۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے اس کی تعلیم '' لا اکراہ فی الدین'' یعنی اسلام میں کسی قسم کا( کسی سطح پر بھی ) جبر نہیں۔
اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل پیراء ہوا جائے تو پھر مذہب و مملکت مین کوئی محاز آرائی نہیں ہے ۔اسلام بلا امتیاز مذہب و ملت پر سختی سے کاربند رہنے کا اٹل اور غیر مبدل اصول پیش فرماتا ہے ۔ اسلام کے نام پر بھی حقیقی جمہوریت میں مذہب و سیاست کی آمیزش جمہوری اقدار کے منافی ہیں اور اسلام بھی ریاست میں مذہب و سیاست الگ الگ کرنے اور مذہبی رواداری کے اصولوں پر سختی سے کارنبد رہنے کی تلقین کرتا ہے ۔گویا اسلام کسی مذہب کے پیرو کار کو اپنی مذہبی عقائد عبادات کے مطابق بلاخوف زندگی گزار نے کی اجازت دیتا ہے ۔اور مختلف مذاہب کے مذہبی لوگ اپنی مذہبی رسوم و رسم رواج ،کلچر کو فروغ دینا چاہیں تو اسلامی حکومت کی طرف سے انہیں پوری آزادی ہوگی ۔پس اسلامی حکومت کہلانے والی اصل حکومت مذہبی رواداری اور عدل اور انصاف پر سختی سے کاربند ہوگی ۔اور اگر کوئی لبرل سیکولر جمہوری حکومت جب مذہبی روادری کے کامل عدل و انصاف پرمبنی اصولوں پر سختی سے کاربند ہوگی ۔تو گویا اسلامی طرز حکومت جیسی عدل و انصا ف مذہبی روداری کی عکاس ایسی سیکولر لبرل جمہوری حکومت بھی اسلامی حکومت بن جائے گی ۔
قرةالعین حیدر نامور ناول نگار اپنی آب بیتی ''کار جہا ں دراز ہے'' میں تقسیم سے چند روز نئی دہلی میں ١٠ ۔اورنگ زیب روڈ کے ڈنر کے موقع پر قائداعظم کے قریبی معتمد خاص راجہ صاحب محمو د آباد کے قائداعظم سے مکالمہ کا ذکر فرمایا جب راجہ صاحب محمود آباد اور ان کے رفقاء کار نے قائداعظم سے دریافت کیا پاکستان کے نظام حکومت کا مذہبی رول کیا ہوگا ؟ تو قائداعظم نے پاکستان کی حکومت میں مذہبی رول یعنی مذہبی پیشوائیت کی نفی میں جواب دیا۔ قائداعظم نے قرون وسطیٰ کی طرز کی مذہبی حکومت کی سختی سے تردید کرتے ہوئے فرمایا '' پاکستان میں سیکولر جمہوریت ہوگی '' ١٩٤٩ء میںقرار داد پاکستان منظور ہوئی وہ بھی سیکولر جمہوری لبرل نظام حکومت کی عکاس ہے ۔اور اس میں کہا گیا '' جیسا کہ تمام کائنات کی حاکمیت صرف خداتعالیٰ کی حاکمیت ہے ' اس نے جو اختیارات ریاست پاکستان کو اس کے عوام کی وساطت سے اپنی حدود کے مطابق استعمال کرنے کی غرض سے سونپے ہیں ' وہ ایک مقدس ذمہ داری ہیں ۔''
اس کی دوسری شق میں ہے : یہ کہ اسلام کے بیان کردہ جمہوریت ' آزادی' مساوات ' رواداری اور سماجی انصاف کے اصو لوں کی کامل پابندی کی جائے گی ۔'' اور جبکہ اسلام میں بھی مذہبی رواداری لا اکراہ فی الدین '' یعنی دین میں کسی بھی سطح پر جبرو کراہ جائیز نہیں۔'' یعنی اس اہم حکم میں اسلامی ریاست کوئی قانون سازی مذ ہب کے نام پر غیر مسلموں کے خلاف جبر پر مبنی عدل و انصاف کے خلاف قانون سازی نہیں کی جا سکتی یعنی ایسی قانون سازی جس میں مسلم غیر مسلم کے درمیان عدل و انصا ف کے اصولوں کیخلاف کوئی امتیاز برتا گیا ہو ۔ قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل اور قیام پاکستان کے بعد جو پاکستان میں'' سیکولر لبرل جمہوریت ''کے نظام کا تصور دیا۔
ایسی لبرل جمہوریت میں بلا امتیاز مذ ہب و ملت ہر شہری کو سیاسی و شہری حقوق دستیاب ہوتے ہیں۔ قائداعظم نے بھی پاکستان میں انہیں سیاسی و شہری حقوق کا اعلان فرمایا '' آپ آزاد ہیں ' آپ کو پاکستان میں اپنے مندروں ' مسجدوں یا دوسری عبادت گاہوں میں جانے کی مکمل آزادی ہے ۔خواہ آپ کسی مذہب ' نسل یا ذات سے تعلق رکھتے ہوں ، اس کا کوئی تعلق اس بنیادی اصول سے نہیں ہے کہ ہم ایک ریاست کے شہری اور مساوی حثیت رکھنے والے شہری ہیں۔'' قائداعظم نے جن سیکولر لبرل جمہوریت میں مذ ہبی سماجی شہری آزادیوں کا جن حقوق کا ذکر فرمایا ہے یہ اسلام کے دئے گئے حقوق اور اسلام کے تصور حکومت کی بہترین عکاس ہے۔
Bookmarks