Results 1 to 3 of 3

Thread: قائد اعظم کا تصور مملکت' اسلامی نظام ؟

  1. #1
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default قائد اعظم کا تصور مملکت' اسلامی نظام ؟

    [SIZE="5"]مذہب اور مملکت کا مسئلہ ایک ہمہ گیر آفاقی مسئلہ ہے مگر پوری سنجیدگی سے تحقیق نہیں کی گئی حضرت عیسٰی علیہ السلام نے فریسوں کو ایک تاریخی جواب دیا تھا جو انجیل میں ان الفاظ میں درج ہے ''تب اس نے کہا کہ جو قیصر کا ہے قیصر کو دو ،اور جو خدا ہے وہ خدا کودو ۔''( متی باب ٢٢ آیت ٢١) حضرت عیسٰی علیہ السلام کے اس بیان کی رُو سے مذہب اور سیاست کو الگ رکھا جائے اور فرد کی شخصی ،ضمیر کی آزادی عقیدہ کی آزادی پر ریاست کی طرف سے کوئی قدغن لگائی جائے ۔کیونکہ مذہب و سیاست دوپہیوں کی طرح ہیں ۔جب تک سب کل پُرز ے اپنی اپنی جگہ پر قائم رہتے ہوئے دونوں پہئیے صحیح سمت حرکت کرتے رہے ہیں تو پھر سیکولر نظام یا کسی نظام میں بھی مذہب و سیاست کے تصادم میں جھگڑے کا سوال ہی پیدا نہ ہوگا ۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے اس کی تعلیم '' لا اکراہ فی الدین'' یعنی اسلام میں کسی قسم کا( کسی سطح پر بھی ) جبر نہیں۔

    اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل پیراء ہوا جائے تو پھر مذہب و مملکت مین کوئی محاز آرائی نہیں ہے ۔اسلام بلا امتیاز مذہب و ملت پر سختی سے کاربند رہنے کا اٹل اور غیر مبدل اصول پیش فرماتا ہے ۔ اسلام کے نام پر بھی حقیقی جمہوریت میں مذہب و سیاست کی آمیزش جمہوری اقدار کے منافی ہیں اور اسلام بھی ریاست میں مذہب و سیاست الگ الگ کرنے اور مذہبی رواداری کے اصولوں پر سختی سے کارنبد رہنے کی تلقین کرتا ہے ۔گویا اسلام کسی مذہب کے پیرو کار کو اپنی مذہبی عقائد عبادات کے مطابق بلاخوف زندگی گزار نے کی اجازت دیتا ہے ۔اور مختلف مذاہب کے مذہبی لوگ اپنی مذہبی رسوم و رسم رواج ،کلچر کو فروغ دینا چاہیں تو اسلامی حکومت کی طرف سے انہیں پوری آزادی ہوگی ۔پس اسلامی حکومت کہلانے والی اصل حکومت مذہبی رواداری اور عدل اور انصاف پر سختی سے کاربند ہوگی ۔اور اگر کوئی لبرل سیکولر جمہوری حکومت جب مذہبی روادری کے کامل عدل و انصاف پرمبنی اصولوں پر سختی سے کاربند ہوگی ۔تو گویا اسلامی طرز حکومت جیسی عدل و انصا ف مذہبی روداری کی عکاس ایسی سیکولر لبرل جمہوری حکومت بھی اسلامی حکومت بن جائے گی ۔

    قرةالعین حیدر نامور ناول نگار اپنی آب بیتی ''کار جہا ں دراز ہے'' میں تقسیم سے چند روز نئی دہلی میں ١٠ ۔اورنگ زیب روڈ کے ڈنر کے موقع پر قائداعظم کے قریبی معتمد خاص راجہ صاحب محمو د آباد کے قائداعظم سے مکالمہ کا ذکر فرمایا جب راجہ صاحب محمود آباد اور ان کے رفقاء کار نے قائداعظم سے دریافت کیا پاکستان کے نظام حکومت کا مذہبی رول کیا ہوگا ؟ تو قائداعظم نے پاکستان کی حکومت میں مذہبی رول یعنی مذہبی پیشوائیت کی نفی میں جواب دیا۔ قائداعظم نے قرون وسطیٰ کی طرز کی مذہبی حکومت کی سختی سے تردید کرتے ہوئے فرمایا '' پاکستان میں سیکولر جمہوریت ہوگی '' ١٩٤٩ء میںقرار داد پاکستان منظور ہوئی وہ بھی سیکولر جمہوری لبرل نظام حکومت کی عکاس ہے ۔اور اس میں کہا گیا '' جیسا کہ تمام کائنات کی حاکمیت صرف خداتعالیٰ کی حاکمیت ہے ' اس نے جو اختیارات ریاست پاکستان کو اس کے عوام کی وساطت سے اپنی حدود کے مطابق استعمال کرنے کی غرض سے سونپے ہیں ' وہ ایک مقدس ذمہ داری ہیں ۔''

    اس کی دوسری شق میں ہے : یہ کہ اسلام کے بیان کردہ جمہوریت ' آزادی' مساوات ' رواداری اور سماجی انصاف کے اصو لوں کی کامل پابندی کی جائے گی ۔'' اور جبکہ اسلام میں بھی مذہبی رواداری لا اکراہ فی الدین '' یعنی دین میں کسی بھی سطح پر جبرو کراہ جائیز نہیں۔'' یعنی اس اہم حکم میں اسلامی ریاست کوئی قانون سازی مذ ہب کے نام پر غیر مسلموں کے خلاف جبر پر مبنی عدل و انصاف کے خلاف قانون سازی نہیں کی جا سکتی یعنی ایسی قانون سازی جس میں مسلم غیر مسلم کے درمیان عدل و انصا ف کے اصولوں کیخلاف کوئی امتیاز برتا گیا ہو ۔ قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل اور قیام پاکستان کے بعد جو پاکستان میں'' سیکولر لبرل جمہوریت ''کے نظام کا تصور دیا۔

    ایسی لبرل جمہوریت میں بلا امتیاز مذ ہب و ملت ہر شہری کو سیاسی و شہری حقوق دستیاب ہوتے ہیں۔ قائداعظم نے بھی پاکستان میں انہیں سیاسی و شہری حقوق کا اعلان فرمایا '' آپ آزاد ہیں ' آپ کو پاکستان میں اپنے مندروں ' مسجدوں یا دوسری عبادت گاہوں میں جانے کی مکمل آزادی ہے ۔خواہ آپ کسی مذہب ' نسل یا ذات سے تعلق رکھتے ہوں ، اس کا کوئی تعلق اس بنیادی اصول سے نہیں ہے کہ ہم ایک ریاست کے شہری اور مساوی حثیت رکھنے والے شہری ہیں۔'' قائداعظم نے جن سیکولر لبرل جمہوریت میں مذ ہبی سماجی شہری آزادیوں کا جن حقوق کا ذکر فرمایا ہے یہ اسلام کے دئے گئے حقوق اور اسلام کے تصور حکومت کی بہترین عکاس ہے۔

  2. #2
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default

    دنیا میں حقوق کا ایک سادہ سا فارمولا ہے کہ اگر کسی شہری کو شہری و سیاسی حقوق دے دئے جائیں ۔تو اس کے بعد معا شی ' سماجی' ثقافتی اور مذہبی حقوق خود بخود مل جاتے ہیں ۔دنیا میں کوئی بھی ملک معاشرہ ایسا نہیں ہے جہاں ایک ہی عقیدے ' نسل اور رنگ کے لوگ آباد ہوں ۔ پاکستان میں بھی مختلف نظر یات 'عقیدے ' ثقافت اور زبان کے لوگ آباد ہیں ۔سیکولر جمہوری حکومت کے مطابق مذ ہبی ' سماجی ' ثقافتی کثیر الجہت ایسے معاشرہ میں کوئی فرد محض مذہب اور عقیدے کی بناء پر مراعا ت یافتہ ہو اور نہ ہی کوئی مسلمانوں کی کوئی جماعت یا فرقہ ( جس کے عقائد سے اکثریتی فرقوں کو اختلاف ہو) امتیازی سلوک کا شکار ہو ' محض اس بناء پر کہ وہ کسی مخصوص سماجی گروہ سے تعلق رکھتا ہے ۔ لیکن پاکستان میںاکثریتی مراعات یافتہ فرقہ کی مذہبی جماعتوں نے مل کر آئین پاکستان میں بہت سی مذہبی عدم روادری کی عدل و انصاف اور انسانی بنیادی حقو ق کے منافی مذہبی ترامیم داخل کروادیں ۔گویاان ترمیم کے ذریعہ بنیادی انسانی حقوق اور مذہبی 'سماجی اقدار اور عدل و انصاف کے اصولوں کا گلا گھونٹ کے رکھ دیا گیا ۔ اور اس کے بعد آئین پاکستان میں ہر دور کے آمر نے جمہوری بنیادی اصولوں کے منافی آئین میں ترامیم کا سلسلہ جاری کردیا ۔ جس کے نتیجہ میںپاکستان میں مذہبی عدم روادی دہشت گردی لا قانونیت کی نشونما ہوئی اور آج پاکستان مذہبی دہشت گردی اور خود کش حملوں کی لپیٹ میں ہے ۔ گویا اس کی سزا پوری پاکستانی قوم کو مل رہی ہے ۔ .......اسلام کی مذہبی رواداری بلا امتیا ز مذہب وملت عدل و انصاف کی پوری ایمانداری سے پاسداری سے ہی اسلام کے اس اعلان پر غیر مسلم دنیا یقین کرسکتی ہے کہ اسلام کی آغوش میں تمہارے لئے بھی امن ہے ۔

    '' ا سلام کا کوئی وطن نہیں اور ہروطن اسلام کا ہے۔'' کی رُوسے کوئی بھی مسلم مملکت یا اس کا فرد کسی غیر مسلم کو یہ کہہ نہیں سکتا کہ تمہارے لئے ہمارے ملک کے پاس کوئی امن نہیں کیونکہ تم ہماری وطنیت کے مخالف ہو۔پس یہ ایک واضح بنیادی حقیقت ہے جسے بدقسمتی سے مسلمان بھلا بیٹھے ہیں ۔اور اسلامی قومیتوں کے تصو ر کو اُبھارتے ہیں اور اس طرح مسلمان اور غیر مسلم کو آپس میں بر سر پیکار کردیتے ہیں۔امر واقعہ یہ ہے کہ ہم نے ( اسلام کی امن و سلامتی کی تعلیم یعنی اخلاق سے )سب دنیا کے دل جیتنے ہیںاور دل تصا دم ہونے سے نہیں جیتے جاتے ۔ بلکہ پیغام کی لڑائی تو نظریات کی لڑائی ہے۔پیغام کی لڑائی میں ایسے اصول کارفرما ہوتے ہیں جن کا دنیا کی لڑائیوں سے د ور کا کبھی تعلق نہیں ہوتا ۔

    پس مذہب کا تعلق روحانی دنیا سے اور اس کی تعلیمات کی جنگ روحانی اصطلاحوں میں لڑی جاتی ہے ۔جب یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام کو اس غرض سے پیدا کیا گیا تاکہ دنیا کے تمام ادیا ن پر غالب آجائے تو اس کا ہرگز یہ مفہوم نہیں کہ مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی کہ تم تلوار ہاتھ میں پکڑو اور تمام میں انکار کرنے والوں کی گردنیں کاٹتے پھرو اور جو تسلیم کرے اور سر جھکا دے صرف اسی کو امن کا پیغام دو' باقی سب کے لئے فساد اور جنگ کا پیغام بن جائو ۔یہ نہ عقل کے مطابق ہے نہ عملاََ ایسا دنیا میں ہو سکتا ہے نہ کبھی ہوا ہے۔لیکن جہادی علماء کی طرف سے پہلا نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے تلورا کا استعمال نظریات کی تشہیر میں نہ صرف جائیز ہے بلکہ ضروری ہے اور تلوار کے زور سے نظریات کو تبدیل کردینے کا نام اسلامی جہاد ہے ۔لیکن ساتھ ہی یہ کہاجاتا ہے ( تلوار کی طاقت و جبر سے مذہبی نظریات کو تبدیل کروانا ) یہ حق صرف مسلمانوں کو ہے عیسائیوں یا یہود یا ہندوئوں یا بدھوں کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی مسلمان کے نظرئیے کو بزور تبدیل کریں۔لیکن اگر کوئی مسلمان بذات خود کوئی دوسرا مذہب اختیار کرلے تو ملاں کے دین کے مطابق دنیا کے ہر مسلمان کا یہ حق ہے کہ اسلام سے مرتد مسلمان کی گردن اُڑا دی جائے ۔یہ جہادی ملاں کا دوسر ا'' غیرمنصفانہ ''ا صول ہے جو وہ خدا اور قرآن کے نام پر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور نام نہاد جہاد کے علمبردار وںکے عدل و انصاف سے عاری غیر فطرتی نظریات نے دنیا میں اسلام کو جبر دہشت گردی کے مذہب کے طور پر متعارف کروایا ہے ۔

    پس اسلامی ممالک میںمسلمان سیاستدانوں کا بھی اس میںبہت بڑا قصور ہے ۔انہوں نے خود اسلام کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔دین ملاں کے سپرد کربیٹھے اور یقین کرلیا کہ ملاں جو اسلام پیش کررہا ہے وہی درست ہے ہرچند کے ان کے ضمیر روشن خیالی نے ملاں کے اسلام کی پیش کردہ تصویر کو رد کیا ہے۔لیکن پھر بھی سیاستدان ' حکمران یہ جرایت نہیں رکھتے کہ ملاں کے اسلام کے عدل و انصاف کے اصولوں کے منافی نام نہاد خونی جہاد کے خلاف اعلانیہ آواز اُٹھا سکیں،اور بنیاد پرست مذہبی جماعتوں کو چیلنج کرسکیں۔ خدا کرے کہ ہمار ے حکمران یہ نظریا تی قدام اُٹھا کر اپنے عوام کو اسلام کی امن و سلامتی کی تعلیم کی حقیقت سے روشناس کرواسکیں۔

    اسلامی حکومتوں میں مذہبی جماعتوں نے سیاست کو ہی قیام دین کا ذریعہ سمجھ لیا جائے ۔لیکن اگر اہل علم حضرات بھی سیاست کو دین پر حاوی کرنے لگ جاویں اور صاحب اقتدار کا آلہ کار یا خود اقتدار پسند بن جائیں اور اسلام کے نام پر پارٹی بازی شروع کردیں تو تاریخ گواہ ہے کہ ایسی سیاست سراسر خسران کا موجب ہے ۔اس کے نتیجہ میں کبھی بھی دین کو سرسبزی نہیں ہوتی بلکہ قتل و غارت کا بازار گرم ہوتا ہے ۔ازمنہ وسطیٰ میں عیسائی فرقوں کی مثال بڑی واضح ہے جبکہ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ اپنے اپنے اقتدار کی خاطر باہم دست وگریباں رہے ۔اور جو بھی فرقہ برسر اقتدار آجاتا تھا تو دوسرے فرقہ کے ماننے والوں کو مٹانے کے لئے ہر سفاکی کو جائیز سمجھتا اور دونوں کے پادری ایک دوسرے کو کافر اور واجب القتل قرا ر دے دیتے تھے ۔ بالآخر بعد از خرابی بسیار اہل مغرب نے پادریوں کی پیشوائیت کے اقتدار کے خاتمہ کے لئے مذہب و سیاست کو الگ کرکے اس کی جگہ سیکولر جمہو ری نظام کو اختیار کیااور اس طرح صدیوں کا مذہب کے نام پر خونریزی کا یہ سلسلہ اختتام پذیر ہوا۔ مذ ہب و سیاست کے ناپاک ملاپ سے عالم اسلام کی حکومتیں اندرونی طور پر سیاسی خلفشار کا شکار ہیں ۔اور مذہب و سیاست دونوں کے درمیان تصادم ہے۔ مذہب و سیاست کے ناپاک ملاپ سے عالم اسلام دو نیم پڑا ہوا ہے 'سیاست کی دنیا الگ ہے اور مذہبی سوچ کی دنیا الگ ہے ۔سیاستدان و مذہبی راہنما دونوں ہی کبھی یہ فیصلہ نہیںکر پائے کہ وہ حد فاصل کون سی ہے جو مذہب کو مملکت سے جُدا کرتی ہے ۔جہاں تک عیسائیوں کا تعلق ہے یہ مسئلہ اُس وقت حل ہوجانا چاہیے تھا جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فریسیوں( یہودیوں ) کو ایک تاریخی جواب دیا تھا جو انجیل میں ان الفاظ میں درج ہے۔

    ''تب اس نے کہا کہ جو قیصر کا ہے قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو ۔'' ( متی باب ٢٢ آیت ٢١) حضرت عیسٰی علیہ السلام کا بیان بہت پُر حکمت ہے اس میں ہر ضروری بات بیان کردی گئی ۔ لیکن اہل مغرب کو بہت طویل عرصہ کی مذہب کے نام پر بدامنی خونریزی قتل وغارت گری کے بعد یہ سمجھ آئی کہ مذہب و سیاست معاشرہ کے دو پہیوں کی طرح ہیں ۔ پہیے خواہ دو ہوں یاچار یا آٹھ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا جب تک سب کل پُرزے اپنی اپنی جگہ قائم رہتے ہوئے صحیح سمت میں حرکت کرتے رہیں کسی قسم کا تصادم اور جھگڑے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔لیکن تصادم اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب دین کو سیاست میںمیں دخیل کیا جائے ۔ قائداعظم کے لبرل جمہوری تصور حکومت یہ اسلام کے تصور نظام حکومت کا بہترین عکا س ہے ۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے قائداعظم کے نظریات کو اپنے سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا کر جمہوری ریاست کو مذہبی چوغہ پہنا دیا ہے ۔اور مذہب کے نام پر آئین میں دئے گئے بنیادی انسانی حقوق کو چھین لیا حکمرانوں نے پاکستان کے مسلمانوں کومذہب و سیاست کے بارے میں نفسیاتی اُلجھنوں کا شکار کر دیا

  3. #3
    mani_ok7's Avatar
    mani_ok7 is offline Senior Member+
    Last Online
    2nd November 2011 @ 05:31 PM
    Join Date
    07 Aug 2008
    Location
    paris
    Age
    31
    Posts
    799
    Threads
    53
    Credits
    930
    Thanked
    6

    Default

    nice one.......!!!
    آئی ٹی دنیامیں سیگنیچرز میں اتنے بڑے سائز کی امیج لگانا سختی کے ساتھ منع ہے۔۔۔آئی ٹی دنیا ٹیم

Similar Threads

  1. قائد اعظم، اسلام اور پاکستان
    By tesst2 in forum 14 August 2023.....Independence Day
    Replies: 5
    Last Post: 11th August 2012, 07:07 PM
  2. Replies: 20
    Last Post: 15th December 2010, 07:31 PM
  3. Replies: 13
    Last Post: 3rd August 2010, 06:19 PM
  4. Replies: 21
    Last Post: 2nd August 2010, 04:00 PM
  5. Replies: 7
    Last Post: 7th May 2010, 10:36 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •