السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاۃ
مدینے کا سفر ہے اور میں نمدیدہ نمدیدہ
جبیں افسردہ افسردہ ، قدم لغزیدہ لغزیدہ
چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانب طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ ، بدن لرزیدہ لرزیدہ
کسی کے ہاتھ نے مجھ کو سہارا دے دیا ورنہ
کہاں میں اور کہں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ
کہاں میں اور کہاں اُس روضہء اقدس کا نظّارہ
نظر اس سمت اٹھتی مگر دُزدیدہ دُزددیدہ
مدینے جا کے ہم سمجھے تقدس کس کو کہتے ہیں
ہوا پاکیزہ پاکیزہ ، فضا سنجیدہ سنجیدہ
بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے
مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ
وہی اقبال جس کو ناز تھا کل خوش مزاجی پر
فراقِ طیبہ میں رہتا ہے اب رنجیدہ رنجیدہ