بہرہ پن:
اللہ تعالی نے جو خاس حسیں انسان کو عطا کی ہیں ان میں سننے کی حس کی بھی بڑی اہمیت ہے اور سننے کا کام سب جانتے ہیں کہ ہم کان سے لیتے ہیں،واضع رہے کہ ہمارے دماغ کو ملنے والے تمام پیغامات کا تقریبا تیئس فیصد حصہ کانوں کے ذریعے پہنچتا ہے۔کان کے تین حصے ہوتے ہیں،اندرنی،وسطی اور بیرونی حصہ۔سب سے پہلے آواز کی لہریں کان کے بیرونی حصہ میں داخل ہو کر اس حصے کی نالی سے گزر کر پردہ سے ٹکراتی ہیں پھر یہ کان میں وسطی حصے میں موجود تین مہین نازک مگر اپنے وجود کے اعتبار سے مضبوط ہڈیوں سے باری باری ٹکراتی ہیں پھر یہ ایک اور پردے سے ٹکراتی ہیں۔کان کے وسطی حصے کے پردے سے لمف نالیوں کا محلول مس ہوتا ہے۔آواز کی لہریں اس سے ہوتی ہوئی سماعت کے عصب کی گانٹھوں یا گرہ سے ٹکراتی ہوئی دماغ تک پہنچتی ہیں۔وہاں دماغ انہیں ڈی کوڈ کرتے ہوئے ایک “مطلب اور شکل“ دیتا ہے۔جب بھی کان کے بیرونی ،وسطی یا اندورنی کان کے کسی حصے میں کوئی نقص پیدا ہوتا ہے تو مختلف درجے کا بہرہ پن جنم لیتا ہے۔

بہرہ پن کی وجوہ؛
موروثی،سفلس کی وجہ بھی ہو سکتی ہے۔اس سلسلے میں شادی بیاہ کے وقت خیال رکھنا چاہیے ہے کہ ایسے دو خاندانوں میں رشتہ استوار نہ کیا جائے کہ جہاں دونوں طرف کچھ بہرے یا گونگے بچے پیدا ہوتے ہوں۔
بچپن میں کئی بیماریوں کے بچاؤ اور علاج کی طرف لاپروائی کے نتیجہ میں سماعت کو نقصان پہنچتا ہے۔ حفضان صحت اور علاج میں باقاعدگی سے ایسی کیفییات سے بچا جا سکتا ہے۔
نظام تنفس کے اوپری حصوں کو ممپس ،خسرہ،سرخ بخار سے نہ بچانا۔سر میں چوٹ لگنا۔صدمہ پہنچنا۔
بڑھاپے میں اعصاب اور خون کی نا لیوں کا تنگ اور سخت ہو جانا۔
کان میں میل جمع ہونے دینا۔
وسطی کان کو خصونت سے نہ بچانا۔
Menieres diseasesہونا۔کان کے اندر رطوبت کا بڑھ جانا اور جھلی کا سکڑ جانا،اس سے کان میں شائیں شائیں کی آوازیں آنا۔شور سے اپنے آپ کو نہ بچانا یا اس سے بچاؤ کے طریقے نہ اپنانا۔یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر شور کس آواز کو کہتے ہیں۔کان کو ناگوار گذرنے والی آواز شور کہلاتی ہے۔جدید رہن سہن،پیشوں اور شور میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔گھر سے باہر رکشہ،بسوں کے پریشر ہارن،اونچی آواز کی موسیقی،کام کی جگہ مشینوں اور لوگوں کا شور و غوغا،کھیل جیسے نشانہ بازی اور آتش بازی کے مقابلے وغیرہ اور گھر میں باورچی خانہ میں استعمال ہونے والی مشینیں،ویکیوم کلینر اور ریڈیو ،ٹی وی کا شور ۔
واضع رہے کہ ہر شور سماعت کے لیے نقصان دہ نہیں ہوتا ہے۔سماعت کے لیے شور وہ نقصان دہ ہوتے ہیں جو بہت اونچے اور انکی لہریں بہت چھوٹی گہری ہوں اور کئی کئی گھنٹے انہیں برداشت کرنا پڑے یا دفعتا ایسی لہروں سے سابقہ پڑ جائے مثلا فائرنگ کی آواز یا جنگ میں استعمال ہونے والا اسلحہ اور آتش گیر مادہ سے دھماکا وغیرہ۔کار کے ہارن،بسوں کے شور سے سماعت اتنی متاثر نہیں ہوتی ہے جتنا کہ اعصاب پر اثر پڑتا ہے۔فیکٹریوں اور کارخانوں کے شور سے بچنے کے لیے احتیاط نہ برتنے کی صورت میں ہونے والا نقصان تقریبا مستقل ہی ہوتا ہے کیونکہ سماعت کے عصب اس شور کے دباؤ کے اثر سے آہستہ آہستہ ہوتے ہوتے مفلوج ہو جاتے ہیں۔

بچوں میں سماعت کے نقص؛
کان کا پیدائشی طور پر تنگ ہونا۔پیدائشی طور پر کان کے اندرونی حصے میں کسی ٹیومر یا کینسر کا ہونا۔کان کے اندرونی بیرونی حصوں کا نشونما نہ ہونا۔وائرل اور بیکٹیریل انفیکشن،انتہائی شدت آمیز شور۔کسی حادثہ کے نتیجے میں کان کے کسی حصے کو نقصان پہنچنا۔والدین کا اپنی مرضی سے معالج کے مشورہ کے بغیر بچوں کے امراض میں ادویات کھلانا۔ذیابطس اور گردوں کی خرابی۔

سماعت کو بچائے رکھنے کے طریقے؛
کان کو ہمیشہ بہت احتیاط سے صاف کرنا چاہئے ہے۔کوشش کریں کے کاٹن بڈ پر ہلکا سا زیتون کا تیل لگا کر کان کو صاف کریں۔نہاتے وقت کان میں روئی تیل میں بھیگو کر کان میں رکھ لیں اور پھر نہایں۔سایئنو سائیٹس کی بیماری میں نہ تیریں،اگر تیرنا بہت ضروری ہو تب ناک بند کرنے کی چٹکی لگا کر تیریں۔کان کا درد اگر چند گھنٹوں سے زیادہ رہے تب بھی فوری طور پر معالج سے رابطہ کرنا چاہیے ہے۔کان کبھی بھی نوکدار یا باریک شے سے نہ کھجایئں۔کان میں کچھ پھنس جانے کی صورت میں خود سے نکالنے کی کوشش نہ کریں۔اسے نکالنے میں معالج کا تعاون حاصل کریں۔وسطی کان کو خصونت سے بچانے کے لیے ہمیشہ حلق کی بیماریوں اور نزلہ زکام سے اپنی حفاظت کریں۔جب ناک صاف کرنی مقصود ہو تو ایک نتھنا بند کرکے دوسرا نتھنا صاف نہ کریں بلکہ اسکی بجائے ناک کی ہڈی پر رومال رکھ کر منہ سے بڑا سانس لیں اور پھر ناک سنکیں۔ورنہ حلق سے اندرونی کان میں ہوا کا دباؤ برقرار رکھنے والی باریک سی نالی سے انفیکشن کان میں منتقل ہو جاتی ہے۔جسکا بہت بعد میں علم ہوتا ہے ۔بعض حا لتوں میں اسوقت کان کو اتنا نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے کہ جراحت کی ضرورت پڑتی ہے۔کان کے اندر پھنسیوں کی صورت میں کوئی سا تیل یا محلول دوا نہ ڈالیں بلکہ معالج سے رجوع کریں۔بہرہ پن محسوس کرتے ہی علاج کے لیے رجوع کرنا چاہیے ہے تاکہ فوری طور پر ادویات کی مدد سے اسے بڑھنے سے روکا جا سکے۔ورنہ جراحت کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور بعض حالتوں میں تو جراحت سے بھی سماعت کو واپس نہیں لایا جا سکتا ہے۔پیدائش کے بعد اگر بچہ کسی بھی تیز آواز پر نہ چونکے تو پہلی فرصت میں اسے معالج کو دکھائیں۔بچے کی پیدایئش کے پہلے دن سے ہی بچے سننا شروع کر دیتے ہیں۔اگر بچہ مستقل کوئی بھی رسپونس نہیں*دے کسی بھی قسم کی آواز کو تو سب سے پہلی فرصت میں اسے audiologist کو دکھایئں۔سماعت کا ٹیسٹ تین ماہ کی عمر میں کیا جاتا ہے اور ٹریٹمنٹ چھے مہینے کی عمر میں۔