Results 1 to 5 of 5

Thread: سرچ انجن یا گھر کا بھیدی؟

  1. #1
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default سرچ انجن یا گھر کا بھیدی؟

    انٹرنیٹ کی دنیا میں ہمارے سفر کو ممکن بنانے والے سرچ انجن ہمارے بارے میں بہت کچھ جان لیتے ہیں، مثلاً ہمارے کمپیوٹر کا آپریٹنگ سسٹم کیا ہے، ہم کون سا براؤزر استعمال کر رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم عموماً کون سی ویب سائٹس پر جاتے ہیں۔ یورپ میں گُوگل کی پرائیویسی پالیسی پر حالیہ بحث کے پس منظر میں ہمارے ٹیکنالوجی ایڈیٹر ڈیرن واٹرز نے درج ذیل میں اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ آخر مختلف سرچ انجن اور دیگر ویب سائٹ اپنے صارفین کے بارے میں کیا کیا معلومات اکھٹی کر لیتے ہیں۔




    میرا سرچ انجن مجھے یہ بھی بتاتا ہے کہ میں کن چیزوں کی خریداری کے لیے انٹرنیٹ پر جاتا رہا ہوں، کن خبروں، کن تصویروں اور حتیٰ کہ کن علاقوں کے نقشوں کی تلاش کرتا رہا ہوں۔



    اگر کوئی بھی شحض ان معلومات پر ایک نظر ڈالتا ہے تو اسے میرے طرز زندگی کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ نہ صرف اس کا کہ میرے شوق کیا ہیں بلکہ میری حرکات و سکنات کا بھی۔ گوگل کو یہ بھی پتہ ہے کہ پچھلے ہفتے میں رچمنڈ کے علاقے میں ایک حجام کی دکان کا پتہ بھی ڈھونڈ رہا تھا۔



    گوگل کے علاوہ یاہُو اور ایم ایس این بھی میرے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ اگرچہ میں ان دونوں کے سرچ انجن استعمال نہیں کرتا لیکن ان اداروں کے پاس بھی میرے بارے میں بنیادی معلومات موجود ہیں کیونکہ یہ معلومات مجھے اس وقت دینا پڑی تھیں جب میں نے ان ویب سائٹس پر ’سائن اِن‘ کیا تھا۔
    اور یہی وہ بات ہے جو صارفین کی پرائیویسی کے ماہرین یعنی کسی صارف کی ذاتی معلومات اکھٹی کرنے والی ویب سائٹس کے بارے میں اقدامات کا سوچنے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ یہ لوگ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ذاتی معلومات محفوظ رہیں اور یہ کسی دوسرے کی دسترس میں نہ جائیں۔
    ویب سائٹس کے پاس کسی صارف کے رویے کا جائزہ لینے کے لیے سب سے آسان نسخہ کُکیز (cookies) ہیں۔ کُکیز ان چھوٹی چھوٹی فائیلوں کو کہتے ہیں جو آپ کے انٹرنیٹ پر جانے کی صورت میں آپ کے کمپیوٹر میں محفوظ ہوجاتی ہیں۔



    کسی بھی کمپیوٹر میں موجود ہر کُکی کے اندر ایک خفیہ نمبر (یا مخفف) بھی ہوتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے کسی ویب سائٹس پر جانے کے لیے وہ کمپیوٹر بھی استعمال کیا ہے۔


    سوال یہ ہے کہ یاہُو اور گُوگل جیسی کمپنیاں یہ معلومات جمع کیوں کرتی ہیں؟



    اس کا سادہ ترین جواب تو یہ ہے کہ انٹرنیٹ کمپنیاں ایسا ہماری سہولت کے لیے کرتی ہیں۔ یعنی ہم جب بھی انٹرنیٹ استعمال کریں ہمیں غیر ضروری دقت نہ ہو۔ مثلاً کُکیز میں ہماری ترجیحات (پpreferrences) بھی سٹور ہوتی ہیں، جیسے ہم کس زبان میں انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کُکیز ویب سائٹ کو یہ بھی بتاتی ہیں کہ اُس ویب سائٹ سے پہلے ہم کس سائٹ پر تھے اور یہ بھی کہ ہم اس کے بعد کس سائٹ پر جائیں گے۔
    اگرچہ آپ براؤزر پر کُکیز کو بند یا آف بھی کر سکتے ہیں لیکن اس سے نقصان یہ ہوگا کہ کئی ویب سائٹس یا تو ٹھیک سے کام نہیں کریں گی اور یا کام کرنا بالکل بند کر دیں گی۔
    صارف کا رویہ جاننے کے لیے یاہُو، گوگل اور مائیکروسوفٹ اپنی سائٹس پر کُکیز کے علاوہ ننھی سی الیکٹرانک تصاویر یا امیج بھی استعمال کرتے ہیں جنہیں ویب بیکنز (web beacons) کہتے ہیں۔
    یہ کپمنیاں ان چھوٹی چھوٹی تصاویر سے پیسے بناتی ہیں کیونکہ دراصل یہ اُن اشیاء کے اشتہارات ہوتے ہے جو ویب سائٹ کسی مخصوص صارف کے رویے اور شوق کو پیش نظر رکھ کر تجویز کرتی ہے۔




    کاروباری اور اشتہاری کمپنیاں ویب سائٹس پر اشتہار دینا بہت پسند کرتی ہیں کیونکہ جب کوئی صارف ویب سائٹ پر ان کے اشتہار پر کِلک کرتا ہے تو وہ براہ راست اس کمپنی تک پہنچ جاتا ہے۔
    اس کا مطلب شاید یہ ہوا کہ ہماری ذاتی معلومات سرچ انجن یا ویب سائٹیس کے علاوہ مختلف کاروباری اور اشتہاری کمپنیوں تک بھی پہنچ جاتی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا یہ معلومات کسی تیسری پارٹی تک بھی پہنچ جاتی ہیں؟




    گُوگل کی عالمی پرائیویسی کونسل کے رکن پیٹر فلیچر کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوتا۔ ’ گُوگل کے کسی بھی صارف کے بارے میں معلومات کسی تیسرے ادارے یا پارٹی کو نہیں دی جاتیں، حتیٰ کہ اشتہاری کمنپیوں کو بھی نہیں۔ ہم صارف کا ذاتی نمبر، اس کا آئی پی ایڈریس اور اکاؤنٹ کی تفصیلات کسی دوسرے فریق کو نہیں دیتے۔‘
    یاہُو اور ایم ایس این کا بھی یہی کہنا ہے کہ وہ صارف کی مرضی کے بغیر اس کی ذاتی معلومات کسی کو بھی نہیں دیتے۔
    ان کپمنیوں کے بقول ہوتا یہ کہ وہ صارف کی ترجیحات کی روشنی میں اس کا ایک پروفائل بناتی ہیں اور اشتہاری اور کاروباری کمپنیاں اپنی مصنوعات فروخت کرنے کے لیے صارف کی ذاتی تفصیلات کی بجائے اس کا پروفائل استعمال کرتی ہیں۔ یاہُو اپنے اکاؤنٹ ہولڈر کی ذاتی معلومات کا صرف وہ حصہ استعمال کرتا ہے جس سے اس صارف کی شناخت خفیہ رہتی ہیں لیکن اس کے شوق اور ذاتی ترجیحات اشتہاری کمپنیوں تک پہنچ جاتے ہیں۔




    یاہو کے برعکس گُوگل اس وقت تک کسی صارف کی ویب ہسٹری استعمال نہیں کرتا جب تک کہ اس میں صارف کی رضامندی شامل نہ ہو۔ اسی طرح گُوگل صرف اسی صورت میں صارف کے بارے میں معلومات محفوظ کرتا ہے جب وہ اس کی اجازت لے چکا ہوتا ہے۔



    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی صارف کی ذاتی معلومات کا کسی کمپنی تک اس صورت میں پہنچنا کہ اس کمپنی کو صارف کا نام پتہ وغیرہ نہ معلوم ہو سکے، کوئی فکر مندی کی بات ہے یا نہیں؟
    مسٹر فلیچر کا کہنا ہے کہ اس چیز سے بچنا مشکل ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ آپ کے بارے میں معلومات انٹرنیٹ کی دنیا میں جمع نہ ہوں لیکن ان کے خیال میں اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے آپ کی پرائیویسی کو کوئی خطرہ ہے۔
    ان کا کہنا ہے ’ ہوگا یہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ سرچ انجن آپ کو زیادہ سے زیادہ انتخاب کی سہولتیں دینے لگیں گے۔ یہ میرا محض خیال ہے لیکن مجھے امید ہے کہ لوگوں کو یہ کہنے کا حق ہوگا کہ وہ انٹرنیٹ کو کن شرائط پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اپنی ذاتی معلومات دینا چاہتے ہیں یا یہ چاہتے ہیں کہ آپ کو ایک مخصوص خفیہ پروفائل کے حوالے سے ویب سائٹ پر جانا جائے۔‘
    انہوں نے مزید کہا ’ ہم ایک ایسی نسل ہیں جو کہ تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ بحثیت فرد اور ایک معاشرے کی حیثیت سے ہمیں سیکھنا ہوگا کہ ہم کس طرح کی شناخت چاہتے ہیں۔ ہم ویب سائٹ پر گمنام رہ کر کام کرنا چاہتے ہیں یا ایک دوسرے نام کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔
    فلیچر کے بقول انٹرنیٹ ٹیکنالوجی بنانے والی کمپنیاں ایسی چیزیں بناتی رہیں گی جو آپ کو مختلف سہولتیں مہیا کریں اور اگلے پانچ برسوں میں یہ چیز ہماری زندگی کا حصہ بن جائے گی کہ ہم کسی سرچ انجن پر اپنی کیا شناخت رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘



    ہوگا یہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کو یہ کہنے کا حق ہوگا کہ وہ انٹرنیٹ کو کن شرائط پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اپنی ذاتی معلومات دینا چاہتے ہیں یا یہ چاہتے ہیں کہ آپ کو ایک مخصوص خفیہ پروفائل کے حوالے سے ویب سائٹ پر جانا جائے

  2. #2
    AliDaMalang is offline Member
    Last Online
    15th January 2011 @ 05:27 AM
    Join Date
    13 Mar 2009
    Location
    Sydney, Australia
    Age
    57
    Posts
    2,089
    Threads
    173
    Thanked
    7

    Default

    Very nice and informative article..........

    Thanks for sharing..............

  3. #3
    Sprightly Princess's Avatar
    Sprightly Princess is offline Senior Member+
    Last Online
    27th November 2009 @ 12:28 PM
    Join Date
    06 Mar 2009
    Age
    36
    Posts
    3,031
    Threads
    135
    Credits
    955
    Thanked
    4

    Default

    very informative..
    Signature Removed - Please Use Images upto 30KB Only, Your Image was 198 KB Large- Team iTD!

  4. #4
    waqas18's Avatar
    waqas18 is offline Advance Member
    Last Online
    16th February 2024 @ 03:23 PM
    Join Date
    30 Jan 2009
    Location
    In someone's Dreams...
    Gender
    Male
    Posts
    7,452
    Threads
    261
    Credits
    98
    Thanked
    16

    Default

    Good Info...

  5. #5
    Baazigar's Avatar
    Baazigar is offline V.I.P
    Last Online
    24th April 2024 @ 04:11 AM
    Join Date
    16 Aug 2009
    Location
    Makkah , Saudia
    Gender
    Male
    Posts
    29,912
    Threads
    482
    Credits
    148,899
    Thanked
    970

    Default

    Quote imran sdk said: View Post
    انٹرنیٹ کی دنیا میں ہمارے سفر کو ممکن بنانے والے سرچ انجن ہمارے بارے میں بہت کچھ جان لیتے ہیں، مثلاً ہمارے کمپیوٹر کا آپریٹنگ سسٹم کیا ہے، ہم کون سا براؤزر استعمال کر رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم عموماً کون سی ویب سائٹس پر جاتے ہیں۔ یورپ میں گُوگل کی پرائیویسی پالیسی پر حالیہ بحث کے پس منظر میں ہمارے ٹیکنالوجی ایڈیٹر ڈیرن واٹرز نے درج ذیل میں اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ آخر مختلف سرچ انجن اور دیگر ویب سائٹ اپنے صارفین کے بارے میں کیا کیا معلومات اکھٹی کر لیتے ہیں۔




    میرا سرچ انجن مجھے یہ بھی بتاتا ہے کہ میں کن چیزوں کی خریداری کے لیے انٹرنیٹ پر جاتا رہا ہوں، کن خبروں، کن تصویروں اور حتیٰ کہ کن علاقوں کے نقشوں کی تلاش کرتا رہا ہوں۔



    اگر کوئی بھی شحض ان معلومات پر ایک نظر ڈالتا ہے تو اسے میرے طرز زندگی کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ نہ صرف اس کا کہ میرے شوق کیا ہیں بلکہ میری حرکات و سکنات کا بھی۔ گوگل کو یہ بھی پتہ ہے کہ پچھلے ہفتے میں رچمنڈ کے علاقے میں ایک حجام کی دکان کا پتہ بھی ڈھونڈ رہا تھا۔



    گوگل کے علاوہ یاہُو اور ایم ایس این بھی میرے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ اگرچہ میں ان دونوں کے سرچ انجن استعمال نہیں کرتا لیکن ان اداروں کے پاس بھی میرے بارے میں بنیادی معلومات موجود ہیں کیونکہ یہ معلومات مجھے اس وقت دینا پڑی تھیں جب میں نے ان ویب سائٹس پر ’سائن اِن‘ کیا تھا۔
    اور یہی وہ بات ہے جو صارفین کی پرائیویسی کے ماہرین یعنی کسی صارف کی ذاتی معلومات اکھٹی کرنے والی ویب سائٹس کے بارے میں اقدامات کا سوچنے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ یہ لوگ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ذاتی معلومات محفوظ رہیں اور یہ کسی دوسرے کی دسترس میں نہ جائیں۔
    ویب سائٹس کے پاس کسی صارف کے رویے کا جائزہ لینے کے لیے سب سے آسان نسخہ کُکیز (cookies) ہیں۔ کُکیز ان چھوٹی چھوٹی فائیلوں کو کہتے ہیں جو آپ کے انٹرنیٹ پر جانے کی صورت میں آپ کے کمپیوٹر میں محفوظ ہوجاتی ہیں۔



    کسی بھی کمپیوٹر میں موجود ہر کُکی کے اندر ایک خفیہ نمبر (یا مخفف) بھی ہوتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے کسی ویب سائٹس پر جانے کے لیے وہ کمپیوٹر بھی استعمال کیا ہے۔


    سوال یہ ہے کہ یاہُو اور گُوگل جیسی کمپنیاں یہ معلومات جمع کیوں کرتی ہیں؟



    اس کا سادہ ترین جواب تو یہ ہے کہ انٹرنیٹ کمپنیاں ایسا ہماری سہولت کے لیے کرتی ہیں۔ یعنی ہم جب بھی انٹرنیٹ استعمال کریں ہمیں غیر ضروری دقت نہ ہو۔ مثلاً کُکیز میں ہماری ترجیحات (پpreferrences) بھی سٹور ہوتی ہیں، جیسے ہم کس زبان میں انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کُکیز ویب سائٹ کو یہ بھی بتاتی ہیں کہ اُس ویب سائٹ سے پہلے ہم کس سائٹ پر تھے اور یہ بھی کہ ہم اس کے بعد کس سائٹ پر جائیں گے۔
    اگرچہ آپ براؤزر پر کُکیز کو بند یا آف بھی کر سکتے ہیں لیکن اس سے نقصان یہ ہوگا کہ کئی ویب سائٹس یا تو ٹھیک سے کام نہیں کریں گی اور یا کام کرنا بالکل بند کر دیں گی۔
    صارف کا رویہ جاننے کے لیے یاہُو، گوگل اور مائیکروسوفٹ اپنی سائٹس پر کُکیز کے علاوہ ننھی سی الیکٹرانک تصاویر یا امیج بھی استعمال کرتے ہیں جنہیں ویب بیکنز (web beacons) کہتے ہیں۔
    یہ کپمنیاں ان چھوٹی چھوٹی تصاویر سے پیسے بناتی ہیں کیونکہ دراصل یہ اُن اشیاء کے اشتہارات ہوتے ہے جو ویب سائٹ کسی مخصوص صارف کے رویے اور شوق کو پیش نظر رکھ کر تجویز کرتی ہے۔




    کاروباری اور اشتہاری کمپنیاں ویب سائٹس پر اشتہار دینا بہت پسند کرتی ہیں کیونکہ جب کوئی صارف ویب سائٹ پر ان کے اشتہار پر کِلک کرتا ہے تو وہ براہ راست اس کمپنی تک پہنچ جاتا ہے۔
    اس کا مطلب شاید یہ ہوا کہ ہماری ذاتی معلومات سرچ انجن یا ویب سائٹیس کے علاوہ مختلف کاروباری اور اشتہاری کمپنیوں تک بھی پہنچ جاتی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا یہ معلومات کسی تیسری پارٹی تک بھی پہنچ جاتی ہیں؟




    گُوگل کی عالمی پرائیویسی کونسل کے رکن پیٹر فلیچر کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوتا۔ ’ گُوگل کے کسی بھی صارف کے بارے میں معلومات کسی تیسرے ادارے یا پارٹی کو نہیں دی جاتیں، حتیٰ کہ اشتہاری کمنپیوں کو بھی نہیں۔ ہم صارف کا ذاتی نمبر، اس کا آئی پی ایڈریس اور اکاؤنٹ کی تفصیلات کسی دوسرے فریق کو نہیں دیتے۔‘
    یاہُو اور ایم ایس این کا بھی یہی کہنا ہے کہ وہ صارف کی مرضی کے بغیر اس کی ذاتی معلومات کسی کو بھی نہیں دیتے۔
    ان کپمنیوں کے بقول ہوتا یہ کہ وہ صارف کی ترجیحات کی روشنی میں اس کا ایک پروفائل بناتی ہیں اور اشتہاری اور کاروباری کمپنیاں اپنی مصنوعات فروخت کرنے کے لیے صارف کی ذاتی تفصیلات کی بجائے اس کا پروفائل استعمال کرتی ہیں۔ یاہُو اپنے اکاؤنٹ ہولڈر کی ذاتی معلومات کا صرف وہ حصہ استعمال کرتا ہے جس سے اس صارف کی شناخت خفیہ رہتی ہیں لیکن اس کے شوق اور ذاتی ترجیحات اشتہاری کمپنیوں تک پہنچ جاتے ہیں۔




    یاہو کے برعکس گُوگل اس وقت تک کسی صارف کی ویب ہسٹری استعمال نہیں کرتا جب تک کہ اس میں صارف کی رضامندی شامل نہ ہو۔ اسی طرح گُوگل صرف اسی صورت میں صارف کے بارے میں معلومات محفوظ کرتا ہے جب وہ اس کی اجازت لے چکا ہوتا ہے۔



    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی صارف کی ذاتی معلومات کا کسی کمپنی تک اس صورت میں پہنچنا کہ اس کمپنی کو صارف کا نام پتہ وغیرہ نہ معلوم ہو سکے، کوئی فکر مندی کی بات ہے یا نہیں؟
    مسٹر فلیچر کا کہنا ہے کہ اس چیز سے بچنا مشکل ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ آپ کے بارے میں معلومات انٹرنیٹ کی دنیا میں جمع نہ ہوں لیکن ان کے خیال میں اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے آپ کی پرائیویسی کو کوئی خطرہ ہے۔
    ان کا کہنا ہے ’ ہوگا یہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ سرچ انجن آپ کو زیادہ سے زیادہ انتخاب کی سہولتیں دینے لگیں گے۔ یہ میرا محض خیال ہے لیکن مجھے امید ہے کہ لوگوں کو یہ کہنے کا حق ہوگا کہ وہ انٹرنیٹ کو کن شرائط پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اپنی ذاتی معلومات دینا چاہتے ہیں یا یہ چاہتے ہیں کہ آپ کو ایک مخصوص خفیہ پروفائل کے حوالے سے ویب سائٹ پر جانا جائے۔‘
    انہوں نے مزید کہا ’ ہم ایک ایسی نسل ہیں جو کہ تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ بحثیت فرد اور ایک معاشرے کی حیثیت سے ہمیں سیکھنا ہوگا کہ ہم کس طرح کی شناخت چاہتے ہیں۔ ہم ویب سائٹ پر گمنام رہ کر کام کرنا چاہتے ہیں یا ایک دوسرے نام کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔
    فلیچر کے بقول انٹرنیٹ ٹیکنالوجی بنانے والی کمپنیاں ایسی چیزیں بناتی رہیں گی جو آپ کو مختلف سہولتیں مہیا کریں اور اگلے پانچ برسوں میں یہ چیز ہماری زندگی کا حصہ بن جائے گی کہ ہم کسی سرچ انجن پر اپنی کیا شناخت رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘



    ہوگا یہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کو یہ کہنے کا حق ہوگا کہ وہ انٹرنیٹ کو کن شرائط پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اپنی ذاتی معلومات دینا چاہتے ہیں یا یہ چاہتے ہیں کہ آپ کو ایک مخصوص خفیہ پروفائل کے حوالے سے ویب سائٹ پر جانا جائے
    Very Informative Sharing

Similar Threads

  1. Solved بھارتی بھگوڑا ائیر چیف پاکستانی قید میں
    By Shehzad Iqbal in forum Contest Section
    Replies: 35
    Last Post: 26th September 2015, 10:17 AM
  2. کبھی جو چھیڑ گئی یاد رفتگاں محسن
    By Hope in forum Urdu Adab & Shayeri
    Replies: 14
    Last Post: 14th February 2010, 06:42 PM
  3. Replies: 4
    Last Post: 14th November 2009, 02:51 AM
  4. Replies: 19
    Last Post: 13th November 2009, 09:06 PM
  5. Replies: 0
    Last Post: 24th November 2007, 02:17 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •