ابن جریر طبری رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :
اللہ تعالی کافرمان ہے کہ{ بیشک ہم نے ہی ذکر کو نازل فرمایا ہے } اور وہ ذکر قرآن ہے { اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والےہیں } اللہ تعالی
نے اس میں یہ فرمایا ہے کہ ہم قرآن کی حفا ظت کرنے والے ہیں کہ کہیں اس میں باطل کا اضافہ نہ کر دیا جاۓیا پھر اس کے احکام و حدود
اور فرائض میں سے کچھ کمی نہ کردی جاۓ
تفسیر الطبری
( 14 / 8 )
اور شیخ السعدی رحمہ اللہ تعالی اپنی تفسیر ميں کہتے ہیں کہ :
{ بیشک ہم نے ہی ذکر کو نازل کیا ہے }
یعنی قرآن کو نازل کیا جس میں ہرچيزکے کا ذکر ہے مسائل اورواضحہ دلائل وغیرہ اور اسی طرح اس میں سے جو نصیحت حاصل کرنا
چاہے اس کے لۓ نصحیت بھی ہے ۔
{ اورہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں }
یعنی وقت نزول اور نزول کے بعد بھی ، تو نزول کی حالت میں ہم نے اسے ہر شیطان مردود
سے جو کہ چوری چھپے سننے والا ہے سے محفوظ رکھا ہے ، اور نزول کے بعد اللہ تعالی نے اسے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان
کی امت کے سینوں میں محفوظ کیا ، اور اللہ تعالی نے اس کے الفاظ کو زیادتی اور نقصان اور اس کے معانی کو تغیر تبدل سے محفوظ رکھا
ہے ، تو اس کے معانی میں تحریف کرنے والا کوئ بھی تحریف کرتا ہے تو اللہ تعالی ایسے علماء پیدا فرما دیتا ہے جو کہ حق کو بیان کرتے ہیں ۔
تو اللہ تعالی کی یہ سب سے عظیم نشانی اور نعمت ہے جو کہ اس نےاپنےمومن بندوں پر کی ہوئ ہے ، اور قرآن کی یہ بھی حفاظت ہے کہ اللہ
تعالی اس پر عمل کرنے والوں کو ان کے دشمنوں سے محفوظ رکھتا اور ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط نہیں ہونے دیتا ۔ اھـ
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن تئیس ( 23 ) برس میں تھوڑا تھوڑا کرکے بوقت ضرورت نازل کیا گیا ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
اور قرآن کو ہم نے تھوڑ تھوڑا کرکے اس لۓ اتارا ہے کہ آپ اسے بہ}
{مہلت لوگوں کو سنائيں اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا
الاسراء ( 106 ) ۔
شیخ شعدی رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ :
یعنی : ہم نے یہ قرآن فرق کرنے والا بنا کر نازل کیا ہے جو کہ حق وباطل اورھدایت وگمراہی کے درمیا ن فرق کرنے والا ہے ۔
{ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائيں }
یعنی مہلت کے ساتھ تاکہ وہ اس کے معانی پر غوروفکراور تدبر کر سکیں اور اس کے علوم کا استخراج کریں ۔
{ اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا }
تھوڑا تھوڑا کر کے تئیس برس میں نازل کیا ۔
اھـ تفسیر السعدی ص ( 760 )۔
2 -:
عرب میں لکھائ اور کتابت بہت ہی کم کی جاتی تھی ، اور اللہ تعالی نے انہیں اسی وصف سے نوازتے ہوۓ فرمایا ہے
{ اللہ وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا }
الجمعۃ ( 2 ) ۔
تو وہ لوگ قرآن کریم کو اپنے سینوں میں حفظ کرتے تھے اور ان میں سے بہت ہی ایسے تھے جو کہ بعض آیات اور سورتیں چمڑے
اورباریک پتھروں وغیرہ پر لکھ لیا کرتے تھے ۔
3 - :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں قرآن کریم کے علاوہ کچھ اور لکھنے سے منع فرما دیا تھا ، اور انہیں اپنی کلام لکھنے سے مؤقتا
روک دیا تھا حتی کہ صحابہ کرام کی ہمتیں قرآن کریم کے حفظ اور اس کی کتابت پربندھ جاۓ ، اور اس لۓ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
حدیث کا اللہ تعالی کی کلام قرآن کریم کے ساتھ اختلاط نہ ہو جاۓ اور قرآن کریم زیادتی و نقصان سے محفوظ رہے ۔
4 - :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےامین اورفقہاء صحابہ کرام کی ایک جماعت کووحی لکھنے کی ذمہ داری سونپی رکھی تھی ، اور وہ صحابہ
اپنے تراجم میں کاتب وحی کے ساتھ اس طرح معروف نہیں جتنے کہ خلفاء اربعہ اور عبداللہ بن عمرو بن عاص اور معاویہ بن ابی سفیان اور
زید بن ثابت وغیرہ رضی اللہ تعالی عنہم معروف ہیں ۔
5 - :
قرآن کریم سات لغات ولہجات میں اتارا گیا جیسا کہ عمر بن خطاب رضي اللہ تعالی کی حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ صحیح بخاری ( 2287 ) صحیح مسلم ( 818 )
اور یہ لغات اور لہجات فصاحت میں معروف ہیں ۔
6 - :
خلیفہ اول ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور تک قرآن کریم صحابہ کرام کے سینوں اور چمڑے وغیرہ پر باقی اور محفوظ رہا ، اس
کے بعد مرتدین کے ساتھ لڑائيوں میں بہت سے حفاظ صحابہ کرام شھید ہوگۓ تو ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ کو ڈر پیدا ہوا کہ کہیں قرآن کریم
صحابہ کرام کے سینوں میں ہے نہ رہ کر ضائع ہو جاۓ ، تو انہوں نے کبار صحابہ کرام سے مشورہ کیا کہ مکمل قرآن کریم کو ایک کتاب میں
جمع کیوں نہ کرلیا جاۓ تا کہ وہ ضائع ہونے سے محفوظ رہے ، تو یہ کام انہوں نے حفاظ میں سے زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کے ذمہ
لگایا ۔
اس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے کچھ یوں کیا ہے :
زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے جنگ یمامہ کے بعد میری طرف پیغام
بھیجا ( میں جب آیا تو ) عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے پاس دیکھا تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کہ عمررضی اللہ تعالی میرے
پاس آ کر کہنےلگے کہ جنگ یمامہ میں قرآء کرام کا قتل ( شہادتیں ) بہت بڑھ گیا ہے ، اور مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں دوسرے ملکوں میں بھی
قرآء کرام کی شہادتیں نہ بڑھ جائيں جس بنا پر بہت سا قرآن ان کے سینوں میں ان کے ساتھ ہی دفن ہوجائے گا ، اور میری راۓ تو یہ ہے کہ
آپ قرآن جمع کرنے کا حکم جاری کردیں ۔
تومیں نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کہا کہ تم وہ کام کیسے کرو گے جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ؟
Bookmarks