تنقیط الاعراب
قرآن میں اعجام یعنی-- حروف پر نقطہ گزاری سے پہلے حروف کے حرکات کو واضح کیا گیاہے یعنی اعراب گزاری ہوئی ہے۔
۳#
ایک مرتبہ حضرت علی علیہ السلام کے صحابی اور شاگرد ابو الاسود دوئلی
کسی رہ گزر سے جا رہے تھے کہ کسی کو تلاوت قران کرتے سنا جو یوں پڑھ رہا تھا(انّ اللہ بری من المشرکین و رسولِہِ)حالانکہ آیہ میں رسولُہُ ہے !آیہ کا مطلب ہے خدا اور اس کا رسول مشرکین سے بیزار ہیں ۔لیکن جو وہ پڑھ رہا تھا اس کا مطلب یوں نکل رہا تھا کہ خدا بیزار ہے مشرکین سے اور رسول سے!!یہ سنتے ہی انہیں سخت احساس ہوا کہ قرآن پر اعراب لگانا بہت ضروری ہے چنانچہ انہوں نے اپنے شاگردوں میں سے سب سے بہترین کو چنااور کہا کہ میں قرآن کو بہت آہستہ آہستہ پڑھ رہا ہوں تم میرے ہونٹوں کی حرکت کو غور سے دیکھو اگر کسی لفظ کو اداء کرنے میںمیرے ہونٹ کھل جائیں تو اس لفظ کے اوپرایک نقطہ لگا دو اور اس کا نام فتحہ(یعنی زبر) رکھواور اگر لفظ کو اداء کرنے میں ہونٹ گِر جائیں تو اس لفظ کے نیچے ایک نقطہ لگا دو اور اس کا نام کسرہ (یعنی زیر) رکھواور اگر کسی لفظ کو اداء کرنے میںہونٹ سِکُڑ جائیں تو اس حرف کے آگے ایک نقطہ لگا دو اور اس کا نام ضمّہ(یعنی پیش) رکھو۔
اس طرح نقطوں کے ذریعہ سے حرکتوں کا تعیّن ہوا۔اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ حرکت کو حرکت اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ہونٹوں کی حرکتوں سے بنایا گیا ہے ورنہ خود اس میں تو کوئی حرکت نہیں پائی جاتی۔
ایک بات اور قابل ذکر ہے وہ یہ کہ نقطے لال رنگ سے لگائے گئے تھے تاکہ کسی کو یہ اشتباہ نہ ہو کہ یہ قرآن میں سے ہے یا قرآن کو کسی نے بدل دیا ‘یا قرآن میں تحریف ہو گئی!
ابو الاسود کے اس عمل کو بہت سراہا گیا اور اسے تنقیط الاعراب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ اس دور میں اعراب گزاری نقطوںکے ذریعہ کی گئی تھی!
تنقیط الاعجام
تنقیط الاعراب کے بعد بہت سی مشکلیں حل ہو گئی لیکن ابھی بھی ایک بہت بڑی مشکل باقی تھی‘کیونکہ حروف کے اوپر نقطے نہیں لگے تھے‘ البتہ محققین کا کہنا ہے کہ حروف کے نقطوں کا وجود پہلے سے تھا لیکن لگایا نہیں جاتا تھا بالکل اسی طرح جس طرح ھماری اردو زبان میں حرکات کا وجود تو ہے لیکن لگایا نہیں جاتا ۔ہاں حرکات کا وجود نہیں تھا اس کو ابو الاسود دوئلی نے ایجاد کیا!
بہرحال حروف پر نقطہ نہ ہونا ایسی مشکل تھی جس کا فوری حل بے حدّ ضروری تھا اس لئے کہ ایک حرف کئی کئی طریقوں سے پڑھا جا سکتا تھا نتیجہ میں معنی بالکل بدل جاتے مثلا:تتلوا کو یتلوا ‘ تتلوا اور نتلوا بھی پڑھا جا سکتا ہے!لہذا ابو الاسود کے شاگرد یحیی بن یعمر اور نصر بن عاصم نے حروف کے نقطوں کو بھی لگا دیا۔اس کام کو تنقیط الاعجام کہتے ہیں کیونکہ اس عمل سے نقطوں کے ذریعہ حروف کے ابہام کو دور کیا گیا ہے!اس کے بعد قرآن کا پڑھنا ذرا مشکل ہو گیا کیوںکہ قران نقطوں سے بھرگیا ‘ایک طرف اعراب کے نقطے تو دوسری طرف اعجام کے نقطے!حالانکہ اعراب کے نقطے لال رنگ کے تھے!
یہاں تک کہ خلیل بن احمدفراہیدی نے اعراب کے نقطوں کوہٹا کر اس کو ایک نئی شکل دی ‘فتحہ کو الف سے لیا کسرہ کو یا سے لیا اور ضمّہ کو واو سے لیا ( َ ِ ُ ) خلےل ابن فراہےدی کے اس عمل نے اےک انقلاب برپاکردےا ․ نقطے کم ہونے کی وجہ سے قرآن پڑھنا اور بھی آسان ہو گےا۔اب ضمہ (پےش)کو حرف کے آگے لگانے کی ضرورت نہیں رہی لہذا اسے حرف کے اوپر ہی لگاےا جانے لگا البتہ اےک بات قابل غور ہے وہ ےہ کہ عربوں نے حرکات کی طبےعت کو دےکھ کر نام رکھا لہذا حرکات کی شکل بدلنے کے بعد بھی وہ نام صحےح ہے لےکن فارسی اور اردو میں حرکات کانام اس کی موقعےت کو دےکھ کر رکھا گےا اس صورت میں پےش جائے وقوع بدلنے کے بعد پےش کو پےش کہنا غلط ہے ہاں غلط العام کے طور پر استعمال ہوتاہے ۔فراہےدی نے تنوےن کی بھی شکل حل کردی اور فراہےدی پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے نقطوں کے سلسلے میں ایک مکمل کتاب لکھی ۔
آخر میں خلاصہ بحث کے طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ :۔
#
قرآن میں پہلے نہ نقطے تھے اور نہ ہی حرکات و علامات
#
ہماری سہولت کےلئے ابواسود دوئلی نے نقطوں کے حرکات حرکات معنی کی ہیں اسے تنقیط الاعراب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے
#
پھر ابواسود الدؤلي کے شاگرےحےی ابن ےعمر نے حروف کے نقطوں کو معنی کے اسے تنقیط الاعجام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے
#اس کے بعد فراہےدی اعراب کے نقطو ں کو بدل کر ایک نئی شکل دی جس سے آج ہم مانوس ہیں
۔
حواشی:
۱ :
بحار الانوار ج۹۶ ص۳۴۱
۲ :
باب افعال کے ایک معنی سلب کے ہیں
۳ :
ا بواسود الدؤلي حضرت علی (ر) کے جد صحابی جنگ جمل میں ہم رکاب تھے اہلیبیت کی شان میں قصے اور مرثےہ خوب کہے،آپ کی زیادہ تر شہرت علم نحو کی وجہ سے ہے حضرت علی (ر) نے علم نحو سب سے پہلے آپ ہی کو سکھایا اور آپ نے اس علم کو خوب پھیلایا اسطرح کہ آپ کا نام علم نحو سے جوڑا گیا اور آپ کو واضع علم نحو کے نام سے یاد کیا جانے لگا
Bookmarks