سفر کے لطف سے محروم ھو نہ جائے کہیں
اسے بھی راستہ معلوم ہو نہ جائے کہیں
میں اس لیے بھی چھپاتی ہوں اپنے دل کی بات
میری طرح سے وہ بھی مخدوم ہو نہ جائے کہیں
یہ سوچ کر ہی محبت سے دور رہتی ہوں
یہ ہجر پھر میرا مھزون ہو نہ جاے کہیں
یہ آفتاب کسی اور وقت دھلنے لگے
سلونی شام بھی مغموم ہو نہ جاے کہیں
ہمیں یہ ڈر ہے کہ کسی دن تیری محفل سے
ہمارا ذکر بھی معدوم ہو نہ جاے کہیں
میں اس کو ملنے سے بس اس لیے گریزا ہوں
میرا دماغ بھی محکوم ھو نہ جاے کہیں
یہ سوچتی ہوں کہ کیسے حدوں میں رکھوں اسے
وہ شخص سب کا ہی مخدوم ہو نہ جاے کہیں
Bookmarks