گوگل کو سرچ ریکارڈز محکمہ انصاف کے حوالے کرنے کا حکم دیا گیا ہے امریکہ کے وفاقی جج نے انٹرنیٹ سرچ انجن گوگل کو حکم دیا ہے کہ وہ پچاس ہزار ویب سائٹوں کے ایڈریس سمیت سرچ ریکارڈز امریکی حکومت کے حوالے کر دے۔ تاہم جج جیمس ویرے نے اس ضمن میں اس درخواست کو ردکر دیا کہ گوگل صارفین کی اس فہرست کو بھی عدالت میں جمع کروائے جنہیں وہ گوگل پر سرچ کرتے ہیں۔ جج کا کہنا ہے کہ لوگوں کے ’پرائیوسی کنسیڈریشن‘ کی وجہ سے انہوں نے محکمۂ انصاف کی درخواست کے اس حصے کو رد کر دیا۔ امریکہ کا محکمہ انصاف آن لائن پورنوگرافی پر کنٹرول کے لیے صارفین کے سرچ ریکارڈ تک رسائی چاہتا ہے۔ اپنے فیصلے میں جج نے کہا کہ ’اس خدشہ نے عدالت کی کارروائی کو روک دیا ہے کہ آیا سرچ کے لیے سوالات بشمول انٹر نیٹ پر جنسی مواد کی تلاش کے بذات خود انتہائی حساس معلومات پر مبنی ہیں یا نہیں‘۔ گوگل کے وکیل نکول ونگ کا کہنا ہے کہ جج کے فیصلے نے پرائیوسی کو واضح کر دیا ہے۔ اس فیصلے کا یہی مطلب ہے کہ نہ تو حکومت اور نہ ہی کسی دوسرے کو یہ اختیار ہے کہ وہ انٹر نیٹ کمپنیوں سے ڈیٹا طلب کرتا پھرے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہےکہ امریکی حکومت آئینی طور پر اپنے ’چائلڈ اینٹی پورنوگرافی قانون‘ کے دفاع کے لیے ایک تحقیق کر رہی ہے اورپچاس ہزار پتوں کی معلومات تک رسائی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان پتوں کو اعدادوشمار سےمتعلق تحقیق کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اس سے قبل حکومت نے محض پچاس ویب سائٹوں کے پتوں کی درخواست کی تھی۔ اس مقدمے کا بنیادی نکتہ انٹرنیٹ کمپنیوں کے پاس موجود صارفین کی ذاتی معلومات کا عام کیا جانا ہے۔ امریکی حکومت سنہ 1998 کے چائلڈ آن لائن پروٹیکشن ایکٹ کا دفاع کرنا چاہتی ہے جس پر سپریم کورٹ نے اس کے نفاذ پر اٹھنے والے سوالات کے بعد پابندی لگا دی تھی۔ امریکی حکومت سرچ انجنوں سے مطلوبہ معلومات حاصل کرکے یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ انٹرنیٹ پر پرونوگرافی تک رسائی کتنی آسان ہے۔ گوگل کی تین حریف کمپنیاں اے او ایل، یاہو اور آیم ایس این بھی کو اس کیس کے حوالے سے عدالت میں طلب کیا گیا ہے۔
Bookmarks