کبھی ضد میں ہی تیرے ہو گئے‘ کبھی دل نے تجھ کو گنوا دیا
اسی کشمکش میں جئے صنم‘ تو نے یاد رکھا یا بھلا دیا
کبھی بےبسی میں ہی ہنس دئے‘ کبھی ہنسی نے ہم کو رولا دیا
کبھی پھول سے رہی بےرخی‘ کبھی خار سے ہاتھ ملا لیا
کبھی اک کو اپنا نہ کر سکے‘ کبھی خود کو سب کا بنا لیا
یوں ہی دن گزر گیے پیار کے‘یونہی خواب خود کو بنا لیا
جو ملا نہیں وہ میرا ہوا‘ جسے کھو دیا اسے پا لیا
یہ عجیب کھیل ہیں پیار کے‘ اک خیال سے ہی نبھا لیا
ہے عجیب"احور" کی زندگی‘ کہ میں ہارتی رہی جیت کر
کہ جو خواب ابھرے تھے آنکھ میں انہیں آنکھ میں ہی سلا دیا
Bookmarks